بہرائچ سے بی جے پی کی ممبر آف پارلیمنٹ ساوتری بائی پھولے نے آغاز کر دیا ہے۔ انھوں نے ابتدائی رکنیت سے استعفیٰ دیتے ہوئے بی جے پی کو خیرباد کہہ دیا۔ انھوں نے پارٹی پر دلتوں، مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کے خلاف کام کرنے کا الزام عاید کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ ریزرویشن ختم کرنا چاہتی ہے۔ اس سے قبل بھی وہ بی جے پی پر سنگین نوعیت کے الزامات لگاتی رہی ہیں۔
انھوں نے بی جے پی کی وعدہ خلافی کا ایک چارٹر بھی جاری کیا ہے جس کے مطابق امبیڈکر کی مورتیاں توڑنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ حکومت مسلمانوں کے تحفظ میں ناکام رہی، ان پر ظلم ڈھائے گئے۔ سالانہ دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار نہیں دیا گیا ۔ بینک کھاتوں میں پندرہ پندرہ لاکھ نہیں آئے۔ شہروں اور اداروں کے نام بدل کر اقلیتوں کی تاریخ مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت تعلیم کے نام پر ہندو مسلم کر رہی ہے۔ کالا دھن نہیں لایا گیا بلکہ بھگوڑوں کو بھگایا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ کے قریب آئین کی کاپیاں نذر آتش کی گئیں لیکن کسی کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم نہیں کیا گیا۔ حکومت کے وزرا ملک میں نفرت پھیلا رہے ہیں اور چوکیدار کی پہرے داری میں ملکی وسائل کی چوری ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی انھوں نے بہت سے الزامات عاید کیے ہیں۔
اترپردیش کی یوگی کابینہ کے ایک وزیر اوم پرکاش راج بھر بھی پر تول رہے ہیں۔ وہ بھی ایک عرصے سے بی جے پی پر تخریبی سیاست کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہی رام مندر کا شوشہ چھوڑتی رہتی ہے۔ انھوں نے بلند شہر فساد کے لیے وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ یہ لوگ ووٹ بینک کے لیے جذبات بھڑکانے کا کام کرتے ہیں۔ انھوں نے بی جے پی لیڈروں پر بھی اشتعال انگیزی کا الزام لگایا۔ ان کا کہنا ہے کہ ساوتری بائی پھولے نے بالکل صحیح فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے ہنومان جی کو دلت بتانے پر یوگی آدتیہ ناتھ کی شدید نکتہ چینی کی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یو پی میں ایس پی اور بی ایس پی کا اتاد ہو گیا تو بی جے پی مشکل میں پڑ جائے گی۔
بہار سے این ڈی اے کے حلیف آر ایل ایس پی کے رہنما اوپیندر کشواہا بھی جہاز سے چھلانگ لگانے والے ہیں۔ ان کی ملاقات کانگریس صدر راہل گاندھی اور شرد یادو سے ہونے والی ہے۔ انھوں نے شرد یادو سے پہلے بھی ملاقات کی ہے۔ ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کا شرد یادو کی نو تشکیل شدہ پارٹی لوک تانترک جنتا دل میں انضمام کر دیں گے۔ اس سے قبل وہ راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر اور بہار کے سابق نائب وزیر اعلی تیجسوی یادو سے ملاقات کر چکے ہیں۔
کشواہا نے گزشتہ دنوں کہا کہ این ڈی اے ایک ڈوبتا ہوا جہاز ہے۔ کم از کم بہار میں تو تو ڈوب ہی رہا ہے۔ بقول ان کے اب اس کی سواری خود کشی کے مترادف ہوگی۔ انھوں نے سیٹوں پر مفاہمت کے لیے 30 نومبر تک کا وقت بی جے پی کو دیا تھا۔ وہ وقت بہت پہلے ختم ہو گیا۔ انھوں نے بی جے پی صدر امت شاہ سے ملاقات کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ پھر نریندمودی سے ملنا چاہا مگر انھوں نے بھی وقت نہیں دیا۔ لہٰذا ان کی ناراضگی فطری ہے۔
ادھر بہار کے سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی بھی بی جے پی سے خوش نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ رام ولاس پاسوان کی خاموشی بھی بہت کچھ کہتی نظر آرہی ہے۔ حالانکہ بی جے پی کی جانب سے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جنتا دل یو اور لوک جن شکتی پارٹی کے ساتھ سیٹوں پر تال میل ہو گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی کچھ بھی فائنل نہیں ہوا ہے۔ پاسوان بڑی خاموشی کے ساتھ تمام امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ان سے کچھ بعید بھی نہیں ہے کہ وہ کب کیا کر ڈالیں گے۔ وہ ہمیشہ اقتدار میں شامل رہے ہیں۔ اگر ان کو ذرا بھی احساس ہو گیا کہ 2019 میں بی جے پی کے لیے مشکلات ہیں تو وہ این ڈی اے کی کشتی سے چھلانگ لگانے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کریں گے۔
سابق مرکزی وزیر رگھوونش پرشاد کا بھی یہی کہنا ہے کہ این ڈی اے ایک ڈوبتا جہاز ہے۔ جلد ہی لوگ اس پر سے کود کود کر بھاگنا شروع کر دیں گے۔ انھوں نے رام مندر کا ایشو اٹھانے پر بی جے پی کی مذمت کی اور کہا کہ جب الیکشن کا وقت آیا تو رام یاد آنے لگے ہیں۔ انھوں نے بھی بی جے پر ملک کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کا الزام لگایا۔
Published: 09 Dec 2018, 8:09 PM IST
سیاسی حلقوں میں یہ خبر گرم ہے کہ بالخصوص تین ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیں گڑھ کے انتخابی نتائج نے ان لوگوں کو روک رکھا ہے۔ ان کی نظریں نتائج پر لگی ہوئی ہیں۔ اگر نتائج بی جے پی کے خلاف آتے ہیں جس کا کہ قوی امکان ہے تو این ڈی اے کے جہاز سے کودنے کا سلسلہ تیز ہو جائے گا۔ ابھی تک انتخابی سروے کی جو رپورٹیں آئی ہیں وہ اس بات کا اشارہ دے رہی ہیں کہ بی جے پی ان ریاستوں میں ہار رہی ہے۔ جس کی وجہ سے بی جے پی پر بوکھلاہٹ طاری ہو گئی ہے۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے ہمنوا نیوز چینل بھی اس کی شکست کی پیشین گوئی کر رہے ہیں۔
شیو سینا نے تو پہلے ہی اپنی راہ الگ کر لی ہے۔ اس نے رام مندر کے نام پر آگے آکر بی جے پی سے اس ایشو کو چھیننے کی کوشش کی ہے۔ اودھو ٹھاکرے پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کا الیکشن تنہا لڑیں گے۔
در اصل بی جے پی ایک ایسی پارٹی ہے جو اپنے سامنے کسی دوسری پارٹی کا چراغ جلتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔ جس جس ریاست میں جس جس علاقائی پارٹی نے اس سے ہاتھ ملایا وہ اسے کھا گئی۔ یہی وجہ ہے کہ تلگو دیسم کے چندر بابو نائڈو اس سے الگ ہو گئے۔ ٹی ایس راج شیکھر کو اس حقیقت کا پہلے سے ہی اندازہ تھا اسی لیے بی جے پی کی کوششوں کے باوجود انھوں نے اس سے ہاتھ نہیں ملایا۔ یہی صورت حال کرناٹک میں بھی رہی ہے۔ جنتا دل ایس کو بھی اس کا احساس تھا کہ اگر وہ بی جے پی کے ساتھ گیا تو ختم ہو جائے گا۔ اسی لیے اس نے کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا۔
بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی کی حالت اچھی نہیں ہے۔ 2019 کا پارلیمانی انتخاب جیتنا اس کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ اس کا احساس خو د نریند رمودی، امت شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ وغیرہ کو بھی ہے۔ اسی لیے انھوں نے اب وکاس کی بات کرنی ہی چھوڑ دی ہے۔ جذباتی ایشوز کو کھود کھود کر باہر نکالا جا رہا ہے۔ کانگریس پر لایعنی الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا کہ مودی اور شاہ کا غرور اور حکومت کی ناکارکردگی بی جے پی کا جہاز ڈبو دے گی۔
Published: 09 Dec 2018, 8:09 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Dec 2018, 8:09 PM IST