1977 میں نوین پٹنایک نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا۔ ان کے والد اور اڑیسہ کے قدآور رہنما بیجو پٹنایک کے انتقال کے بعد خالی ہوئی اسکا پارلیمانی سیٹ سے انہوں نے جنتا دل کے ٹکٹ پر ضمنی انتخاب جیتا اور اس کے بعد سیاست میں مسلسل ان کا قد بڑھتا رہا۔
ایک سال بعد پٹنایک نے اپنے والد کے نام پر ’بیجو جنتا دل‘ کا قیام کیا اور رفتہ رفتہ خود کو ملک کے مقبول اور کرشمائی رہنما کے طور پر ڈھالا۔ وہ مرکز کی واجپئی حکومت میں وزیر رہے اور اس کے بعد لگاتار وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ۔ لیکن اپنی چوتھی مدت میں شاید پہلی بار انہیں ایک بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے الیکشن کمیشن میں چناوی خرچ کے حوالے سے فرضی حلف نامہ دائر کیا ہے۔ اس معاملہ میں ابھی فیصلہ آنا باقی ہے۔
Published: undefined
نوین پٹنایک کی سیاسی زندگی میں یہ مشکل 2014 کے اسمبلی انتخابات میں ہوئے چناوی خرچ کے حوالے سے دائر ان کے 2 حلف ناموں سے پید ا ہوئی۔ پارٹی نے جو حلف نامہ دائر کیا اس میں یہ بتایا گیا کہ چناؤمیں خرچ کرنے کے لئے پارٹی نے انہیں 10 لاکھ روپے دئیے تھے جس میں سے تقریباً 6 لاکھ 50 ہزار روپے انہوں نے پارٹی کو واپس لوٹا دئیے ۔ جبکہ نوین پٹنایک نے جو حلف نامہ دائر کیا ہے اس میں انہوں نے پارٹی سے تقریباً 13 لاکھ 50 ہزار روپے لینے کا دعویٰ کیا تھا اور یہ پیسے آر ٹی جی ایس کے ذریعے لئے تھے۔ جبکہ پارٹی نے جو پیسے دئیے تھے وہ چیک سے دئیے گئے تھے۔
Published: undefined
حالانکہ بی جے ڈی کے نائب صدر سمیر موہنتی نے انگریزی اخبار ’دی ٹیلی گراف ‘کو دئیے انٹرویو میں کہا کہ دونوں حلف ناموں کے بے میل ہونے کا دعویٰ غلط ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نوین پٹنایک نے پارٹی سے لئے گئے پیسے کی جو تفصیلات دی تھیں اس میں پارٹی کی طرف سے نوین پٹنایک کی چناوی تشہیر اور ساز و سامان میں خرچ کئے گئے نقد پیسے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے چناوی خرچ سے متعلق دیگر اعداد و شمار بھی دئیے ہیں ۔ بی جے ڈی کے راجیہ سبھا کے رکن پرتاپ دیب نے بھی سارے الزامات کو خارج کر دیا اور حلف ناموں میں دکھ رہی گڑ بڑی کو بینکنگ نظام کی عملی پریشانیاں بتائیں۔
یہ پورا معاملہ تب سامنے آیا جب اڈیشہ کے سماجی کارکن سبھاش مہاپاترا نے مئی 2015 میں الیکشن کمیشن کو ایک عرضی دی۔ مہاپاترا کے مطابق بار بار الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد بھی کمیشن نے کوئی کارروائی نہیں کی جس کے بعد جون 2016 میں اس معاملہ کو لے کر اڈیشہ ہائی کورٹ گئے۔ جولائی 2017 میں ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ایک نوٹس جاری کیا۔ اس کے فوری بعد نوین پٹنایک کے حلقہ انتخاب ہنجلی سے ہارنے والے بی جے پی کے امیدوار یوانندا مہاپاترا نے بھی ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کر دی تھی۔ سبھاش مہاپاترا کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ کے جج ایس کے مشرا نے بعد میں الیکشن کمیشن کو لکھا کہ ان کے نوٹس پر کوئی کارروائی نہ کی جائے۔
Published: undefined
اڈیشہ ہائی کورٹ کی طرف سے معاملہ کو ٹالنے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے سبھاش مہاپاترا نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ۔ اس کے پیش نظر اڈیشہ ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایس کے مشرا نے خود کو اس معاملہ سے الگ کر لیا۔ 27 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے ججوں جسٹس ارون مشرا اور جسٹس ایل ناگیشور نے اس معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا کہ الیکشن کمیشن مہاپاترا کی عرضی پر جلد از جلد کارروائی کرے۔ الیکشن کمیشن نے کورٹ کے سامنے اپنی یہ منشا ظاہر کی تھی۔
Published: undefined
اس بات کو ایک مہینے سے زیادہ گزر چکا ہے اور الیکشن کمیشن کی طرف سے سبھاش مہاپاترا کی عرضی پر کوئی فیصلہ نہیں آیا ہے۔ سبھاش مہاپاترا کا سوال ہے کہ آخر جلد سے جلد فیصلہ دینے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ کیا اس کی کوئی مدت طے نہیں ہوتی؟
فیصلہ آ بھی جائے تو یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ یہ کس کے حق میں جاتا ہے۔ بی جے ڈی کے رکن پارلیمنٹ کلی کیش نرائن سنگھ دیو کو پورا یقین ہے کہ اس معاملہ میں نوین پٹنایک یا بی جے ڈی کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ انہوں نے قومی آواز کو بتایا ’’ جب الیکشن کمیشن میں یہ شکایت درج کی گئی تھی تو الیکشن کمیشن آف انڈیا سے ایک سپر وائزر آئے تھے اور انہوں نے بھی کہا تھا کہ شکایت میں کوئی دم نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہیں اس بات کی خبر نہیں ہے کہ اس معاملہ میں کیا ہوا ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ پورا معاملہ سیاست پر مبنی اور سطحی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کوئی بھی فیصلہ حقائق کی بنیاد پر کرے گا اور سارے حقائق ہمارے حق میں ہیں۔
Published: undefined
حالانکہ کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ حالیہ دنوں میں الیکشن کمیشن پر مرکزی حکومت سے دباؤ میں کام کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں اور اگر ان پر یقین کیا جائے تو یہ ممکن ہے کہ مرکز کی مودی حکومت نوین پٹنایک کے ساتھ کیس ’معاہدے‘ میں جا سکتی ہے۔ یہ جگ ظاہر ہے کہ طویل مدت سے بی جے پی اڈیشہ میں بی جے پی کی طرف سے وزیر اعلیٰ کے ممکنہ امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
الیکشن کمیشن سے وابستہ اس سوال کے جواب میں بی جے ڈی رکن پارلیمنٹ نے قومی آواز سے کہا ’’ پریشانی کی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن مرکزی حکومت کے زیر اثر کام کر رہا ہے۔ گجرات اسمبلی انتخابات کے اعلان کے تعلق سے یہ ہم دیکھ چکے ہیں۔‘‘
یہ پوچھے جانے پر کہ اگر انتخابی کمیشن کا فیصلہ نوین پٹنایک کے خلاف آتا ہے تو بی جے ڈی کیا کرے گی ، انہوں نے کہا ’’ اگر الیکشن کمیشن نوین پٹنایک کے خلاف کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس کے حل کا کوئی اور قانونی طریقہ بھی ہوگا۔‘‘
سینئر صحافی اور فی الحال صد جمہوریہ کے پریس سکریٹری اشوک ملک نے نوین پٹنایک کی سیاسی کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے 2012 میں تہلکہ میگزین میں ایک مضمون تحریر کیا تھا۔ مضمون کے آخر میں ان کا کہنا تھا کہ نوین پٹنایک کو ڈن ہلس سگریٹ کے ایک ڈبے اور فیمس گراؤن وہسکی کے دو پیالوں سے زیادہ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔
2017 میں جب چناوی خرچ میں گڑبڑی سے وابستہ حلف ناموں کا یہ معاملہ چل رہا ہے تو یہ سوال پوچھا جانا چاہئے کہ کیا اب بھی ان کی ضرورتیں اتنی ہی ہیں؟
Published: undefined
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ <a href="mailto:contact@qaumiawaz.com">contact@qaumiawaz.com</a> کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined