ملک میں شہریت قانون اور این آر سی کے ساتھ ساتھ این پی آر یعنی قومی آبادی رجسٹر کے خلاف بھی لوگ سڑکوں پر اتر رہے ہیں۔ این پی آر سے متعلق مرکز کی مودی حکومت کے ذریعہ حکم صادر کیے جانے کے بعد کچھ ریاستوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ این پی آر فارم میں کچھ خانے ایسے ہیں جو نہیں ہونے چاہئیں۔ کیرالہ اور مغربی بنگال حکومت نے تو اس سلسلے میں مودی حکومت سے ٹکرانے کا بھی عزم ظاہر کر دیا ہے اور اس سمت میں قدم بڑھاتے ہوئے رجسٹرار جنرل آف انڈیا (آر جی آئی) کو باضابطہ ایک خط لکھ دیا ہے۔ انگریزی روزنامہ ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں شائع خبر کے مطابق مرکزی وزارت داخلہ کے ذرائع نے اس خط کی تصدیق کی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ این پی آر کی کارروائی شہریوں کے لیے مضر ہے، لہٰذا اس عمل کو ملتوی کیا جائے۔
Published: undefined
میڈیا میں آ رہی خبروں کے مطابق کیرالہ و بنگال حکومت کے ذریعہ تحریر کردہ چٹھی کے بعد اب وزارت داخلہ کشمکش میں مبتلا ہے۔ خط میں کچھ ایسے نکات اٹھائے گئے ہیں جو قابل غور ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ریاستوں کی حکومتوں کا این پی آر کی کارروائیوں کا حصہ نہیں بننے پر مرکز کا کیا رخ ہوگا اس سلسلے میں کوئی وضاحت نہیں دی گئی ہے۔ یہ بھی صاف نہیں ہے کہ آر جی آئی کی طرف سے جس جانکاری کی مانگ کی گئی ہے اسے لازمی بنایا گیا ہے یا نہیں۔ حالانکہ شہریت قانون 2003 کے تحت گھر کے مکھیا کو ہی صحیح اطلاع نہیں دینے پر سزا کا انتظام تھا۔ اس کی دی ہوئی اطلاع غلط پائے جانے پر ایک ہزار روپے کا جرمانہ تھا۔ یہاں تک کہ 2010 میں بھی این پی آر فارم میں سزا کے بارے میں لکھا گیا تھا۔
Published: undefined
گزشتہ این پی آر کے برعکس 2020 کے این پی آر فارم میں سزا سے متعلق کوئی بھی تذکرہ یا ہدایت نہیں ہے۔ ساتھ ہی اس بار این پی آر کی کارروائی کے پہلے مرحلہ میں کچھ نئے سوالوں سے بھی لوگوں کو نبرد آزما ہونا پڑے گا۔ نئے این پی آر فارم میں لوگوں سے آدھار نمبر، موبائل نمبر، ڈرائیونگ لائسنس نمبر، ووٹر آئی ڈی نمبر، مادری زبان، والدین کی یوم پیدائش اور جگہ کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔ فائنل این پی آر فارم میں سے پین نمبر کا خانہ ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 31 مارچ تک نئے این پی آر فارم میں کسی بھی سوال کو ہٹایا یا جوڑا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined