آگرہ: تاج محل کے حوالہ سے آج کل گھمسان کچھ زیادہ ہی مچا ہوا ہے۔ مسلسل چل رہے تنازعہ کے دوران جمعرات کو وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے تاج محل کا دورہ کیا اور وہاں جھاڑو بھی لگائی۔ دریں اثنا آر ایس ایس (راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ) کے شعبہ تاریخ ’اکھل بھارتیہ اتہاس سنکلن سمیتی (اے بی آئی ایس ایس) نے ایک مضحکہ خیز مطالبہ کیا ہے۔ آرایس ایس کے اس ذیلی ادارے کا کہنا ہے کہ تاج محل میں ہونے والی نماز جمعہ پرپابندی لگا دینی چاہئے۔
Published: 27 Oct 2017, 10:58 AM IST
اے بی آئی ایس ایس کے نیشنل سکریٹری بال مکند پانڈے نے کہا ہے کہ تاج محل ایک قومی اثاثہ ہے تو پھر اسے مسلمانوں کوبطورمذہبی مقام کےاستعمال کرنے کی اجازت کیوں دی جاتی ہے۔ بال مکند نے مزید کہا کہ تاج محل کے احاطہ میں نماز کی ادائیگی پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔
بال مکند نے کہا ’’اگر تاج محل میں مسلمانوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت دی جاتی ہے تو پھر ہندوؤں کو بھی شیو چالیسا پڑھنے کی اجازت ملنی چاہئے۔‘‘ غور طلب ہے کہ دو دن قبل ہندو یوا واہنی کے کچھ ارکان نے تاج محل کے باہر شیو چالیسا پڑھنے کی کوشش کی تھی۔
بال مکند پانڈے اتنے پر ہی بس نہیں کرتے بلکہ وہ مزید کہتے ہیں ’’یہ بات اب واضح ہو چکی ہے کہ تاج محل ایک شیو مندر تھا جسے ایک ہندو راجا نے تعمیر کروایا تھا۔ تاج محبت کی نشانی نہیں ہے، شاہجہاں نے تو ممتاز کی موت کے چار مہینے بعد ہی شادی کر لی تھی۔‘‘ پانڈے نے کہا کہ ہم لوگ اس بات کے ثبوت اکٹھے کر رہے ہیں اور جلد ہی سارے ثبوتوں کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
Published: 27 Oct 2017, 10:58 AM IST
واضح رہے کہ اے بی ایس ایس آر ایس ایس کا ذیلی ادارہ ہے جو تاریخ ہند کو اپنی مرضی کے مطابق ’بگھوا رنگ‘ میں رنگنے اور اس کی از سر نو تدوین کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
تاج محل میں نماز کی ادائیگی کی بات کریں تو تاج محل کوئی مسجد نہیں، مقبرہ ہے، جہاں نماز ادا نہیں کی جاتی بلکہ اسی سے ملحقہ ایک مسجد ہے، جسے مسجد جہاں نما یا جامع مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے، نماز وہاں ادا کی جاتی ہے۔ نمازیوں کی تعداد زیادہ ہو جانے اور حفاظت کے پیش نظر جمعہ کے روز تاج محل کو بند رکھا جاتا ہے۔
Published: 27 Oct 2017, 10:58 AM IST
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ <a href="mailto:contact@qaumiawaz.com">contact@qaumiawaz.com</a> کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 27 Oct 2017, 10:58 AM IST