واقعہ میں دو نوجوان زخمی ہیں جن کا علاج چل رہا ہے۔ ڈپٹی ایس پی اور مانڈر تھانا انچارج سمت کمار نے بتایا کہ معاملہ درج کر کے کارروائی کی جار ہی ہے۔ علاوہ ازاں علاقہ میں اضافی پولس فورس تعینات کر دی گئی ہے۔
پولس کے مطابق حالات قابو میں ہیں اور حملہ آوروں کی شناخت کر لی گئی ہے اور گرفتاری کے لئے چھاپہ ماری مہم چلائی جا رہی ہے۔ دریں اثنا مہلوک نوجوان کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے رانچی واقع راجندر میڈیکل انسٹی ٹیوٹ بھیجا گیا۔
Published: 03 Jan 2018, 10:58 AM IST
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق واقعہ جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی سے تقریباً 30 کلو میٹر دور کا ہے۔ ہلاک ہوئے نوجوان کا نام وسیم انصاری ہے جبکہ اس واقعہ میں نور ال انصاری اور منان زخمی ہوئے ہیں۔ تمام تینوں افراد مانڈر کے بازار ٹانڈ کے رہنے والے ہیں۔
وسیم انصاری کی عمر 19 سال بتائی جا رہی ہے۔ دو روز قبل ہی وہ پونے سے مزدوری کر کے لوٹا تھا۔ اس کے والد عففان انصاری گول گپے بیچ کر خاندان کا گزارا کرتے ہیں۔
ڈپٹی ایس پی نے بی بی سی کو بتایا کہ پورے معاملہ کی تفتیش جاری ہے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق مانڈر کے پتراکونا چنداباری میں یکم جنوری کو نوجوانوں کے مختلف گروپ نئے سال کے موقع پر جنگل میں جشن منا رہے تھے۔
اس موقع پر وہ لوگ باجے کے ساتھ ناچ گانا بھی کر رہے تھے۔ وسیم انصاری کچھ دوستوں کے ساتھ وہاں پہنچا اور نوجوانوں کو ناچ گانے سے منع کیا۔
ناچ گانا کرنے والوں کی تعدادکافی زیادہ تھی۔ وسیم کے چاروں طرف ہجوم تھا۔ پھر ہجوم نے مبینہ طور پر ان پر حملہ بول دیا۔
اس واقعہ کے بعد مانڈر بازار ٹانڈ کے مشتعل لوگوں نے رات میں ددوسرے گاؤں کے گھروں پر حملہ کیا جس میں قبائلی طبقہ کے 3 افراد زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ قبل ازیں بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر اتر آئے۔ لوگوں کا الزام ہے کہ ناچ اور حملہ کرنے والے لوگ چٹول کے رہنے والے تھے۔
ادھر منگل کی صبح قتل کی وجہ سے مشتعل لوگوں نے قومی شاہراہ (رانچی ڈالٹن گنج ) کو جام کر دیا۔ کافی مشقت کے بعد پولس جام کو کھلوا سکی۔
رانچی میں پوسٹ مارٹم کے لئے لاش پہنچنے کے بعد وہاں کافی تعداد میں لوگ پہنچے۔ گاؤں کے حسیب انصاری کا الزام ہے کہ لوہے کی چھلنی سےحملہ کرکے ہجوم نے بے رحمی سے اسے قتل کیا۔ حسیب کا کہنا ہے کہ جس جگہ پر یہ واقعہ پیش آیا وہ قبرستا ن سے ملحقہ ہے، وہیں پر لوگوں کا ہجوم ناچ گانا اور ہنگامہ کر رہا تھا۔
وسیم نے قبرستان کے پاس یہ سب کرنے سے منع کیا تو اسے مار ڈالا گیا۔ نور ال اور منان بھاگنے میں کامیاب رہے ورنہ وہ دونوں بھی مارے جاتے۔
حسیب کا دعویٰ ہے کہ چٹول گاؤں کے نوجوانوں نے اس قتل کو انجام دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہجوم کی طرف سے کسی بھی بے گناہ کا قتل کیا جانا اب عام چلن ہو گیا ہے۔
وسیم کے خالو محمد ذکر اللہ کا دعویٰ ہے کہ قبرستان کی حفاظت کے لئے وسیم آگے بڑھا اور مارا گیا۔ وسیم گھر کا اکلوتہ سہارا تھا اس لئے اس کے خاندان کو معاوضہ دیا جانا چاہئے ساتھ ہی حملہ آوروں کی فوری گرفتاری ہونی چاہئے۔
وسیم کے ایک اور خاندان کے فرد عاشق انصاری نے کہا کہ قبرستان کے نزدیک کھانا پینا، ناچنا گانا ٹھیک نہیں ، منع کرنے پر موت کی سزا دی گئی۔ متاثرہ خاندان کے تمام افراد انصاف چاہتے ہیں۔
پولس اور انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ابھی کئی سوالا ت ایسے ہیں جن کے جواب تفتیش ہونے کے بعد ہی مل پائیں گے۔ ان کی ترجیح زخمیوں کا علاج کرانا، مشتعل لوگوں کو سمجھانا اور متاثرہ خاندان کی مدد کرنا ہے۔
(بشکریہ بی بی سی)
Published: 03 Jan 2018, 10:58 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 03 Jan 2018, 10:58 AM IST
تصویر: پریس ریلیز