مرادآباد: ’لَو جہاد‘ قانون نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے۔ یو پی کے مختلف اضلاع میں اس نئے قانون کے تحت اب تک چار مقدمات درج ہوئے ہیں۔ مرادآباد میں جو مقدمہ قائم ہوا ہے اس کی خاص بات یہ ہے کہ لڑکی پولس سے کہتی رہی کہ میں بالغ ہوں اور حمل سے ہوں اور پانچ مہینے پہلے اپنی مرضی سے شادی کی ہے مگر پولس نے ایک نہ سنی اور جبراً تبدیل مذہب کرانے کی دفعہ لگا کر اس کے شوہر اور دیور کو جیل روانہ کر دیا۔ اس دوران بجرنگ دل کارکنان پولس کی موجود گی میں لڑکی سے تیکھے سوال کرتے نظر آئے پر لڑکی لگاتار اس بات پر ڈٹی رہی کہ یہ شادی میری مرضی سے ہوئی ہے۔
Published: 08 Dec 2020, 6:11 PM IST
پولس کی اس کارروائی سے اقلیتی طبقہ میں زبر دست خوف اور ناراضگی ہے۔ ایس پی دیہات ودیا ساگر مشرا خود اپنے بیان میں کہہ رہے ہیں کہ پہلی شکایت پر مقدمہ درج کر کارروائی کر دی ہے۔ لڑکی کی عمر اور اس کی شادی سے متعلق بیان کی جانچ شروع کر دی ہے جس پر لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے بہت سے معاملات میں پولس جانچ کا بہانا بنا کر وقت نکالتی ہے پر اس معاملہ میں گرفتاری پہلے اور جانچ بعد میں ہوگی اور یہ سب شدّت پسندوں کے دباؤ میں ہوتا نظر آ رہا ہے۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ شادی قانون بننے سے پہلے اور خود لڑکی کہہ رہی ہے کہ وہ بالغ ہے اور اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے پھر پولس کو اتنی جلدی کیا تھی کہ ملزمان بنا کر دو لوگوں کو جیل بھیجنے کی۔ پہلے کیوں اس معاملے کی جانچ نہیں کی گئی۔ آخر کار قانون کے رکھوالوں کی ایسی کیا مجبوری ہے۔
Published: 08 Dec 2020, 6:11 PM IST
دو روز قبل پولس نے جبراً تبدیلی مذہب کی دفعات کے تحت اس قانون کے بننے کے بعد مرادآباد میں پہلا مقدمہ درج کیا ہے۔ دوشیزہ اور اس کا شوہر کانٹھ تحصیل کے نائب رجسٹرار دفتر میں شادی کا رجسٹریشن کرانے پہنچا تھا جس کی بھنک بجرنگ دل کے کارکنان کو لگی اور انہوں نے وہاں پہنچ کر ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اطلاع پاکر پولس موقع پر ہونچی اور دوشیزہ و اس کے شوہر راشد اور اس کے دیور سلیم کو اپنی تحویل میں لے لیا۔
Published: 08 Dec 2020, 6:11 PM IST
راشد اپنے بہنوئی کی دوکان ہلدوانی واقع دوکان پر باربر کا کام کرتا ہے جب کہ یہ لڑکی جو بجنور کی رہنے والی ہے دہرہ دون میں پڑھائی کرنے کے ساتھ ساتھ بیوٹی پارلر میں بھی کام کر رہی تھی جہاں ان دونوں کی ملاقات ہوئی اور بعد میں ان دونوں نے شادی کر لی۔ شادی کے بعد راشد اس لڑکی کو اپنی رہاہش گاہ محلہ پٹا گنج کانٹھ لے آیا جہاں یہ گزشتہ پانچ ماہ سے اپنی شادی شدہ زندگی گزار رہے تھے۔ کیونکہ معاملہ دو مذہبوں کا تھا اس لئے کسی نے ان کو مشورہ دیا کہ تم اپنے رشتہ کو رجسٹرڈ کرالو جس پر عمل در آمد کرتے ہوئے یہ دونوں شادی کا رجسٹریشن کرانے کانٹھ تحصیل گئے تھے جس کی بھنک کچھ شدت پسندوں کو ہوئی اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا۔
Published: 08 Dec 2020, 6:11 PM IST
بتایا جاتا ہے کہ پولس نے لڑکی کے والدین کو بجنور سے بلایا پر لڑکی نے ان کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا، جس کے بعد پولس نے لڑکی کو ناری نکیتن بھیج دیا۔ کچھ لوگوں نے یہ تشویش بھی ظاہر کی کہ آخر کار دوشیزہ کا 164 میں بیان کیوں نہیں کرایا۔ ’لو جہاد‘ معاملہ میں گرفتار راشد اور سلیم کے والد رضا علی تقریبات میں بینڈ بجانے کا کام کرتے ہیں اور اس وقت شہر سے باہر ہیں، گھر میں موجود ان دونوں کی والدہ اپنے بچوں کے غم میں نڈھال ہیں اور خوفزدہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ ہمدردی تو دکھا رہے ہیں مگر خوف کے چلتے کوئی بھی ہماری مدد کو آگے نہیں آرہا ہے۔
Published: 08 Dec 2020, 6:11 PM IST
راشد کی والدہ کا کہنا ہے کہ میرے بچے بے قصور ہیں اور جب میری بہو اپنی مرضی ظاہر کر رہی ہے تو پھر پولس کے ذریعہ اس طرح کی کارروائی کا کیا مقصد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی کراروائی سے انسانیت شرمسار ہوگی اور لوگ ایک دوسرے سے محبت کرنے میں گریز کریں گے۔ جس کا نقصان پورے سماج کو ہوگا۔
Published: 08 Dec 2020, 6:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 08 Dec 2020, 6:11 PM IST
تصویر: پریس ریلیز