نئی دہلی: مغل شہنشاہ اکبر کو ہندوستان کے افسانوی گرنتھوں میں اتنی دلچسپی تھی کہ انہوں نے نہ صرف ’مہابھارت‘ اور ’رامائن‘ بلکہ ’اتھروید‘ کا بھی فارسی میں ترجمہ کرایا تھا۔ اتنا ہی نہیں انہاں نے اپنے دور حکومت میں ترجمہ کے کام کو اتنا فروغ دیا کہ ایک ترجمہ بیورو کو بھی قائم کیا تھا۔
Published: undefined
پانچ زبانوں میں گزشتہ 28 سال سے 36 کتابوں کا ترجمہ کرنے والے نے لاک ڈاؤن میں سوشل میڈیا پر ’پاكھی‘ میگزین کے لائیو پروگرام میں یہ اطلاع دی۔ ملیالم، تیلگو اور تامل کے علاوہ ہندی اور انگریزی سے بہت سی کلاسیکی کا ترجمہ کرنے والے سنتوش ایلیکس نے بتایا کہ ہندوستان میں آٹھویں - نویں صدی میں ’رامائن‘، ’مہابھارت‘، ’گیتا‘، ’پںچ تںتر‘،’ اتھروید‘اور’هتواپدیش ‘کا عربی میں ترجمہ ہو چکا تھا۔ اس سے پہلے صرف سنسکرت پراکرت اور پالی زبان میں ہی ترجمہ ہوتا تھا۔
Published: undefined
انہوں نے بتایا کہ نویں صدی کے بعد چینی اور تبتی زبان میں بھگوان بدھ کے پاٹھ (متن) کا ترجمہ پر کام شروع ہوا۔ اس کے بعد 11 ویں صدی میں آسامی، مراٹهی، بنگلہ، تیلگو اور کنڑ زبانوں کی پیدائش ہوئی اور پھر سنسکرت سے ان زبانوں کے درمیان ترجمہ کا کام ہونے لگا۔ پندرہویں صدی میں’رامائن‘ اور’مہابھارت‘ کا ہندوستانی زبانوں میں ترجمہ ہوا جبکہ سولہویں صدی میں سنسکرت سے فارسی زبان میں ترجمہ کے کام ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ اکبر کو ترجمہ کے کام میں اتنی دلچسپی تھی کہ انہوں نے باقاعدہ ترجمہ بیورو قائم کیا تھا جس کا کام قدیم گرنتھوں اور کلاسیک کا فارسی میں ترجمہ کرنا تھا۔ اس دوران مہابھارت، گیتا، رامائن، سنہاسن بتیسی اور یوگ وششٹھ کا بھی ترجمہ ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ بدایونی نے رامائن کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا اور اکبر کو اس کا ترجمہ اتنا پسند آیا کہ انہوں نے بدایونی کو اتھروید کا بھی ترجمہ کرنے کا کام سونپا۔
Published: undefined
سنتوش ایلیکس نے بتایا کہ جب انگریز ہندوستان آئے تو ہمارے قدیم گرنتھوں کے ترجمہ کا کام انگریزی میں ہونے لگا۔ 1705 میں چارلس وكنس نے پہلی بار گیتا کا انگریزی میں ترجمہ کیا جبکہ 1789 میں سر ولیم جونز نے کالی داس کے ’شکنتلم‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ دارا شکوہ نے تو 50 اپنشدوں کا فارسی میں ترجمہ کرایا تھا۔ غیر ملکیوں کو سنسکرت زبان نے اپنی طرف بہت زیادہ متوجہ کیا تھا. میكسمولر کے علاوہ دنیا کے بڑے بڑے فلسفی هیگل، کانٹ، نتشے وغیرہ نے سنسکرت ادب کا بھی مطالعہ کیا تھا اور ظاہر ہے اس کا مطالعہ انہوں نے ترجمہ کے ذریعے کیا ہوگا۔
Published: undefined
انہوں نے بتایا کہ ہندوستانی زبانوں میں پہلا ناول 1918 میں ملیالم میں ’اندو لیکھا‘ کے نام سے شائع ہوا تھا اور اس کا بھی انگریزی میں ترجمہ ہوا تھا۔ اس کے بعد تو بیسویں صدی کے شروع میں ہندی کے ادیب منشی پریم چند اور گنیش شنکر ودیارتھی نے بھی بہت سے غیر ملکی تخلیقات کے ہندی میں ترجمہ کیے اور اس طرح غیر ملکی زبانوں کی اہم تخلیقات کا ہندی میں ترجمہ اور ہندی کی اہم تخلیقات کا غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ کام اب بھی جاری ہے۔
Published: undefined
گزشتہ دنوں ادے پرکاش، گیتانجلی اور الکا سراؤگی جیسی مصنفین کی تخلیقات کی غیر ملکی زبانوں میں تراجم ہوئے، گورکی، ٹالسٹائے، چیخووف، موپاساں، کامو، کافکا، مارخیز، پابلو نرودا، ناظم حکمت اور برتول بریخت جیسے عظیم لکھنے والوں کو ترجمہ کی وجہ سے ہی ہندوستان میں جانا گیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز