مہاجر مزدوروں کو دوسری ریاستوں سے گھر واپسی کے لیے جیسے ہی سہولتیں ملنی شروع ہوئیں، سفر کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔ پنجاب سے گھر واپسی کے لیے محض 3 دن میں 6 لاکھ 10 ہزار لوگوں نے درخواست داخل کر دی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں سے 90 فیصد مہاجر مزدور ہیں۔ ان اعداد و شمار نے ریاستی حکومت کو تو حیران کیا ہی ہے۔ صنعتی دنیا کی بھی نیند اڑا دی ہے۔ پنجاب میں انڈسٹریل کام شروع کرنے کی کچھ شرطوں کے ساتھ اجازت دی گئی ہے۔ لیکن اب دقت مزدوروں کی ہے۔ زیادہ تر مزدور یا تو اپنے گھر کو لوٹ گئے ہیں یا اب درخواست دے کر لوٹنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال ہے کہ انڈسٹری چلے گی کیسے؟ صنعتی دنیا کے ساتھ ساتھ صوبے کے کسان بھی فکر میں ہیں کہ مہاجر مزدوروں کے بغیر دھان کی روپائی کیسے ہوگی۔
Published: undefined
تجارتی شعبہ میں بھی بڑے پیمانے پر مزدوروں کی ضرورت رہتی ہے اور اس ضرورت کو طویل عرصہ سے مہاجر پوربیا مزدور ہی پورا کرتے رہے ہیں۔ اب منظرنامہ بالکل ہی بدل گیا ہے۔ ریاستی صنعتی محکمہ کے مطابق پنجاب میں تقریباً 2.5 لاکھ انڈسٹری ہیں اور ان میں 14 لاکھ سے زیادہ مہاجر مزدور کام کرتے ہیں۔ کئی مزدور برسوں سے مستقل طور پر یہیں رہتے تھے۔ لدھیانہ کے سمرالا بائپاس چوک پر رہنے والے مزدور بال کرشن یادو کہتے ہیں کہ "میں پورنیہ ضلع کا رہنے والا ہوں اور 33 سال سے لدھیانہ کی ایک بڑی فیکٹری میں ملازمت کر رہا ہوں۔ اب جو حالات ہیں ان میں یہاں رک پانا مشکل ہے۔ اس لیے میں نے مع اہل خانہ گھر واپسی کے لیے درخواست کی ہے۔ حالانکہ فیکٹری منیجر خود ہمارے گھر آئے تھے، لیکن ہم نے جانا طے کر لیا ہے۔ اچھا ہے بچوں کا ایڈمیشن نہیں کروایا۔"
Published: undefined
فیڈریشن آف انڈسٹریل اینڈ کمرشیل آرگنائزیشن کے جنرل سکریٹری منجیت سنگھ مٹھارو کے مطابق "ہم نے 1973 میں مشین ٹول کا کاروبار شروع کیا تھا۔ اب کام پوری طرح بند ہے۔ مزدوروں نے ہجرت شروع کر دی ہے۔ کام کیسے چلے گا؟" ایسو سی ایشن آف لدھیانہ مشین ٹولس کے چیئرمین سکھ دیال سنگھ کہتے ہیں "مہاجر مزدوروں کے بغیر صنعتیں چلانا ناممکن ہے۔ مزدوروں کے تعاون کے بغیر انڈسٹری میں دوبارہ جان نہیں آ سکتی۔" فوکل پوائنٹ انڈسٹریز ایسو سی ایشن کے سربراہ رام لبھایا کے مطابق "یہ بہت مشکل وقت ہے۔ پہلی بار اتنا مشکل وقت دیکھ رہے ہیں۔"
Published: undefined
لدھیانہ کی پوری انڈسٹری اس وقت ہجرت کر رہے مزدوروں کو دیکھ کر صدمے میں ہے۔ حالانکہ بے شمار انڈسٹریلسٹ ان کی ہر ممکن مدد بھی کر رہے ہیں لیکن پھر بھی مہاجر مزدور گھر لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ جون-جولائی میں مزدوروں کی کمی کا احساس زیادہ ہوگا۔ جالندھر سے یو پی واپس لوٹنے کے لیے درخواست کرنے والے کمل کشور ناتھ کے مطابق "یہ بحرانی دور ہے اور پتہ نہیں کب تک چلے گا۔ ایسے میں اپنے گھر لوٹ جانا چاہیے۔"
Published: undefined
بیشتر مزدوروں کا مرکز کی بی جے پی حکومت سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ گھر واپسی کے لیے بے قرار مزدور کانگریس کے اس فیصلے کا پرزور استقبال کر رہے ہ یں کہ اس پارٹی نے ان کی واپسی کا پورا خرچ برداشت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جالندھر کے ایک مزدور رمن ورما کہتے ہیں "مرکزی حکومت کو شرم آنی چاہیے۔ جو کام اسے کرنا چاہیے وہ اپوزیشن کی پارٹی کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کسے راحت دے رہے ہیں؟ ہمیں اپنے لیے تو کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا۔"
Published: undefined
بے شک گھر واپسی کے خواہش مند مزدوروں کا سیلاب حکومت کے لیے بڑی دقت کا سبب ہے۔ درخواستوں کی تعداد کو دیکھیں تو لوگوں کو گھر بھیجنے کے لیے ہزاروں ٹرینیں بھی کم پڑ جائیں گی۔ جسمانی فاصلہ کا دھیان رکھتے ہوئے ایک ریل گاڑی میں اوسط سے بہت کم لوگوں کو بٹھانا پڑے گا۔ پھر ایک ساتھ اتنے لوگوں کا ہیلتھ ٹیسٹ اور اسکریننگ بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ رجسٹریشن کی مدت ختم ہونے کے بعد پنجاب کی افسر شاہی اب مزدوروں کی گھر واپسی کی بابت پالیسی بنانے میں لگ گئیہے۔ 22 آئی اے ایس، آئی پی ایس افسروں کے ساتھ 100 سے زیادہ پی سی ایس افسروں کو اس کام میں لگایا گیا ہے۔ ایک سینئر آئی اے ایس افسر نے بتایا کہ 610775 لاکھ لوگوں کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں اور ان کی واپسی کا عمل ایک مشکل کام ہے، لیکن اسے انجام دینا ہوگا۔
Published: undefined
کریڈ کے ماہر معیشت پروفیسر رنجیت سنگھ گھمن کہتے ہیں کہ "مرکز کے اعلان کے بعد اب زیادہ ہجرت ہوگی اور اس کا اثر ہر سیکٹر میں دیکھنے کو ملے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ کہیں زیادہ اور کہیں کم۔ طے ہے کہ ہر جگہ منفی اثر ہی دیکھنے کو ملے گا۔" اُدھر کل لدھیانہ میں مہاجر مزدوروں اور پولس کے درمیان ہوئے پرتشدد تصادم نے ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ جن کا رجسٹریشن نہیں ہوا وہ پیدل اور سائیکلوں کے ذریعہ نکل جانا چاہتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز