بزرگوں کی قربانی سے ملک تو آزاد ہو گیا مگر کچھ لوگ ابھی ایسے ہیں جو فرقہ پرستی اور مذہبی دشمنی کے غلام ہیں اور آئے دن ایسی شرپسندی کو انجام دیتے ہیں جس کی وجہ سے پرامن ماحول زہر آلودہ ہوجاتا ہے۔ ایسے نفرت کے غلاموں و سوداگروں کی وجہ سے ملک کی سب سے بڑی اقلیت دشواریوں کا شکار ہے، ان نفرت بازوں کی وجہ سے مذہبی عبادت کرنے میں اقلیتی طبقہ کو رکاوٹ کا سامنا ہے۔
Published: undefined
مرادآباد کے تھانہ جھلیٹ کے گاؤں دولہا پور میں اس وقت ماحول زہر آلودہ ہو گیا جب راجکمار سینی نام کے ایک شخص نے اپنے ساتھیوں کہ ساتھ مل کر پولیس میں شکایت کی کہ ایک گھر میں باجماعت نماز ادا کی جا رہی ہے، پھر کیا تھا پولیس فوری ایکشن میں آئی اور واحد اور انوّار سمیت دو درجن افراد پر مقدمہ قائم کر دیا۔ جس کے بعد سیاسی سماجی تنظیموں سے جُڑے ذمہ داران سامنے آگئے اور اپنے اپنے انداز میں بیان بازی کرنے لگے۔ حالانکہ جانچ کہ بعد پولیس نے یہ کہتے ہوئے ایف آئی آر ختم کر دی کہ اس شکایت میں کوئی سچائی نہیں ہے۔
Published: undefined
نماز ادا کرنے والے افراد کا بھی یہی کہنا تھا کہ ذاتی رنجش کی وجہ سے یہ سب کیا گیا ہے در اصل اس گاؤں میں تقریباً بیس فیصد آبادی اقلیتوں کی ہے اور گاؤں میں ایک بھی مسجد نہیں ہے جہاں اقلیتی طبقہ اپنی عبادت کر سکے یہاں کے لوگ اپنے گھروں میں ہی عبادت کرنے کو مجبور ہیں، آزاد ہندوستان میں جس کے آئین میں لکھا ہے کہ ہر ایک مذہب کہ ماننے والوں کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے اور زندگی گزارنے کی اجازت ہے تو پھر یہ کس کی ذمہ داری ہے کہ اقلیتوں کو عبادت گاہ بنا کر دے، واحد کہ مطابق گاؤں کے لوگ کئی بار عرضی لگا چکے ہیں کہ اُنہیں عبادت گاہ تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے، مگر کبھی اُس عرضی پر سنوائی نہیں ہوئی۔
Published: undefined
جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ اجتماعی عبادت سے محروم ہیں یہاں تک کہ رمضان المبارک میں تراویح کی نماز ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں، ایک دو بار کوشش کی گئی تو شکایت کی وجہ سے روک دیا گیا، اسی علاقہ کے فتح پور بشنوئی گاؤں میں بھی ایک عبادت گاہ میں برسوں سے سرکاری تالہ پڑا ہے، یہاں کے لوگوں نے بھی بہت جدو جہد کی، مگر کامیابی نہیں ملی۔ گاؤں سے ہجرت کرنے کےاعلان سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا، آخر کار اس گاؤں کے لوگ بھی اپنے اپنے گھروں میں نماز ادا کرتے ہیں۔
Published: undefined
مرادآباد کے ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر ایس ٹی حسن نے بھی دولہا پور گاؤں میں ہوئی اس کارروائی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہاں کے اقلیتوں کو عبادت گاہ تعمیر کرنے کی اجازت فراہم کرے اور اُن شر پسندوں کہ خلاف سخت قانونی کارروائی کر نے کی ہدایت دیں جنھوں ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز