ممبئی: دوسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد نریندرمودی نے پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں این ڈی اے کے منتخب ممبران پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتی فرقہ کے دل سے ڈر و خوف نکالنے کی اشد ضرورت ہے اور سابقہ حکومتوں نے انہیں جس دھوکہ میں رکھا ہے، اسے ختم کرنا ہماری ذمہ داری ہوگی اور ان کا اعتماد بحال کرنا ہے۔
Published: undefined
وزیراعظم کے اس بیان کا این سی پی کے راجیہ سبھا رکن اور مشہور وکیل مجید میمن نے خیر مقدم کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ وزیراعظم مودی بیان بازی کے بجائے نیک نیتی سے عملی اقدامات کریں، کیونکہ مذکورہ بیان سے دوتین دن میں ہریانہ، بہار اور اترپردیش میں ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیں جن میں مسلمانوں کو ان کے مسلمان ہونے کی بناء پر نشانہ بنایا گیا اور انہیں بُری طرح زدوکوب بھی کیا گیا۔
Published: undefined
مجید میمن نے پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں وزیراعظم کے خطاب سے قبل دستور ہند کی کاپی پر سرجھکا کر ’نم ‘ کرنے اور اسے بوسہ دینے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اپنے خطاب میں مودی نے نعرہ ”سب کا ساتھ ، سب کا وکاس کے ساتھ ہی سب کا اعتماد‘‘ یا بھروسہ کو جوڑ دیا ہے۔
Published: undefined
انہوں نے اقلیتی فرقہ کا ذکر کیا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی حکومت پانچ سال میں اقلیت کا اعتماد جیت نہیں سکی اور یقین دلایا کہ ان کی حکومت اس سمت میں ایک جامع وٹھوس قدم اٹھائے گی تاکہ اقلیت کا بھروسہ حاصل کیا جائے اور ملک کی تعمیر وترقی میں انہیں ساتھ لیا جائے۔
Published: undefined
مجید میمن نے کہا کہ مودی نے ایک اچھا بیان دیا ہے، لیکن این ڈی اے حکومت کے گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت میں اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، حالانکہ 2014 میں نریندرمودی کی قیادت میں مرکزی حکومت نے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کا نعرہ دیا تھا، لیکن یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ ان سب میں دلتوں اور مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا، خصوصی طور پر مسلمانوں کو منصوبہ بند طریقہ سے نشانہ بنایا گیا اورموب لنچنگ جیسے تشدد کی روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھائے گئے۔
Published: undefined
2015۔2019 کے درمیان موب لنچنگ کے متعدد معاملات ملک بھر میں پیش آئے اور کئی بے قصورمسلم نوجوانوں کو گائے کے تقدس کے نام پر قتل کردیا گیا ،مودی حکومت نے ان سنگین واردات کی کبھی مذمت نہیں کی اور نہ سخت کارروائی کی گئی بلکہ جھاڑکھنڈ کے رام گڑھ میں علیم الدین انصاری نامی نوجوان کو اکتوبر 2015 میں مشتعل بھیڑ نے قتل کردیا تھا اور اس معاملہ میں ملوث آٹھ شرپسندوں کو گرفتاری کے بعد رانچی کورٹ نے مجرم قرار دیا، اس کے باوجود ان کا استقبال مرکزی وزیر جینت سنہا نے کیا تھا۔ جس پر بھی ارباب اقتدار خاموش تماشائی بنے رہے۔
Published: undefined
انہوں نے مزید کہا کہ ان بے قصورمسلم نوجوانوں کی موت کے بعد ایک بھی مرکزی وزیر کو ان مہلوکین کے گھر جاکر پسماندگان کو دلاسہ دینے کی توفیق نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کے لیے عبوری راحت کا کوئی اعلان کیا گیا جبکہ سپریم کورٹ نے موب لنچنگ پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ سنگین معاملات ہیں اور ان کے دوران قانون کی حکمرانی غیر حاضر نظر آتی ہے۔ مجید میمن نے وزیراعظم کے ذریعہ دستورہند کے احترام میں سرجھکانے اور اسے بوسہ دینے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دستور کے باب سوم میں ایک شہری کے بنیاد حقوق کی بات کہی گئی ہے اور آرٹیکل 21 کے تحت انسانی زندگی کی حفاظت اور اختیارات کی بات موجود ہے، سپریم کورٹ کے مطابق زندہ رہنے کا حق سبھی کو حاصل ہے، زندہ رہنا صرف سانسوں کا تسلسل نہیں ہے، زندگی کاٹنے کے لیے نہیں بلکہ زندگی بہتر انداز میں گزارنے کے لیے ہے، مثال کے طورپر خوشحال زندگی، باوقار زندگی اور بے خوف زندگی کا اختیار ایک جمہوری ملک میں رہنے والے کو دیا گیا ہے، جبکہ سپریم کورٹ نے بھی تفصیل سے اس کی تشریح کی ہے۔
Published: undefined
انہوں نے اس کے حوالہ سے سوال کیا کہ آیا مسلمان کیا دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں اس انداز میں زندگی گزار رہا ہے، لیکن سچائی یہ ہے کہ مسلمان بے خوف زندگی نہیں گزار رہا ہے، ابھی حال میں ملک کی کئی ریاستوں میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں ٹوپی پہنے شخص نے جے شری رام کا زبردستی نعرہ لگائے جانے سے انکار کرنے پر اور نام پوچھ کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور یہ سب مودی کے اعتماد میں لینے کے بیان کے بعد ہوا ہے۔ ایسے واقعات میں پولس خاموش تماشائی بنی نظر آرہی ہے۔
Published: undefined
مجید میمن نے کہا کہ حال میں ملک میں ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ دلت اور مسلمانوں کو خوف اور ڈر کے ماحول میں رہنے پر مجبور کیا گیا اور انہیں ان کے حقوق سے بھی محروم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جوکہ دستور ہند کی سراسر خلاف ورزی ہے جس کا وزیراعظم صدق دل سے احترام کرتے ہیں اور اقلیتوں کے تحفظ اور انہیں اعتماد میں لینے کے لئے اسی دستور اور آئین کی قسم کھاتے ہیں۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ مسلمان دستورہند کے تحت اپنے حقوق چاہتے ہیں اور انہیں منہ بھرآئی کے نام پر کچھ نہیں چاہیے، اس ملک اور اس کے دستور نے انہیں جو حقوق دیئے ہیں، بس وہی انہیں عنایت کر دیئے جائیں، اگر مسلمانوں کو ایک ساتھ لانے اور اعتماد میں لینے کے لیے دلچسی دکھائی جارہی ہے تو حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ایک بھی مسلمان کو امیدواری کیوں نہیں دی گئی۔ ایسے کئی معاملات ہیں جن پر ارباب اقتدار کو غور کرنا ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined