نئی دہلی: کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ جس جلسے میں مودی اور یوگی دونوں ایک ساتھ موجود ہوں وہاں پر آئے لوگ حکومت کے خلاف نعرے بازی کریں اور بیچ اجلاس آواز اٹھائیں کہ ہماری مانگیں پوری کرو۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقہ میں کچھ ایسا ہی نظارہ دیکھنے کو ملا ۔ وارانسی کے جلسے میں عوام میں جو بے چینی نظر آئی اس سے صاف ظاہر ہے کہ مودی کا جادو ختم ہو گیا۔ ویسے تو ملک میں چاروں طرف سے ناراضگی اور غصے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں لیکن مودی کے اپنے پارلیمانی حلقے میں اس قدر ناراضگی ہوگی اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا تھا۔
اجلاس سے قبل بنارس ہندو یونیورسٹی کے طلباء کی ناراضگی کی وجہ سے انتظامیہ کو روٹ بدلنا پڑا جو خود اپنے آپ میں شرمندگی کی بات ہے ۔ وزیر اعظم کا روٹ بدلنے کا مطلب انتظامیہ کی نا اہلی ہے۔ اجلاس کے دوران ایک گروپ کا وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں’ہماری مانگیں پوری کرو‘ کے نعرے لگانے کا کا سیدھا مطلب ہے کہ عوام اب اس قدر پریشان ہو چکے ہیں کہ وہ اپنی بات کہنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اس اجلاس میں شکشا متروں نے الگ نعرے بازی کی اور دو خواتین نے تو اس وقت حد کر دی جب وہ بیریکیڈ کے قریب تک آ گئیں اور پوروانچل ریاست کی تشکیل کی حمایت میں نعرے لگانے لگیں۔
Published: undefined
ذرائع کے مطابق اس سے قبل وزیر اعظم نے اقلیتوں کےتعلق سے ایک پروگرام کے انعقاد کو ہری جھنڈی نہیں دی جس کی وجہ سے اس پروگرام کو کینسل کرنا پڑا ۔ نام نہ بتانے کی شرط پر بی جے پی کے رکن نے اعتراف کیا کہ پارٹی کا گراف بہت تیزی سے نیچے گر رہا ہے اور کارکنان میں زبردست بے چینی ہے۔
Published: undefined
اترپردیش جہاں کے عوام نے پارلیمانی انتخابات میں 80 میں سے 73پارلیمنٹ کی نشستیں اکیلے بی جے پی کو دیں اور 6ماہ قبل 324اسمبلی کی نشستیں بی جے پی کو دیں ۔ ملک کے اہم آئینی عہدوں پر آج اتر پردیش سے نمائندگی کرنے والے بیٹھے ہیں۔صدر جمہوریہ کا تعلق کانپور سے ، وزیر اعظم وارانسی کی نمائندگی کرتے ہیں ، وزیر داخلہ کا تعلق غازی آباد سے ، وزیر اعلی گورکھپور اور ان کے علاوہ مرکز میں اتر پردیش کے 7وزراء اور اس کے بعد جو کچھ وارانسی کے اجلاس میں حکو مت کے خلاف ناراضگی دیکھی گئی وہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جس عوام نے پوری طاقت کے ساتھ مودی کوجتایا تھا اس عوام کو زمین پر کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔
وزیر اعظم جنہوں نے اپنے سامنے پارٹی کو بونا کر دیا ہے اور 2014سے اب تک جتنے انتخابات لڑے ہیں ان میں پارٹی سے بڑا خود کو پیش کیا ہے وہ اپنے خطاب میں کہتے ہیں کہ ’’راجنیتی کا ایک سوبھاو ہوتا ہے کہ وہ اس کام کو کرنا پسند کرتے ہیں جس میں ووٹ کی سمبھاونا ہوتی ہے لیکن ہم الگ سنسکاروں سے پلے بڑھے ہیں ۔ ہمارے لئے دل (پارٹی) سے بڑا دیش ہے ‘‘۔ یہ باتیں سننے میں ضرور اچھی لگتی ہیں لیکن اگر اس کے ساتھ عمل نہ ہو تو پھر ویسا ہی ہوتا ہے جیسا آج پورے ملک اور وارانسی میں ہو رہا ہے کہ وزیر اعظم کو اپنا روٹ بدلنا پڑ رہا ہے اور لوگوں کو ان کے سامنے نعرے بازی کرنی پڑ رہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined