مغربی اتر پردیش کے رسولی گاؤں میں کسان رہنما مہندر سنگھ ٹکیت کی پیدائش ہوئی اور وہیں بھارتیہ کسان یونین کا بھی جنم ہوا ، اسی لئے کسان اس گاؤں کو اپنی راجدھانی مانتے ہیں ۔ اتوار کو ہزاروں کسان رسولی کے پڑوسی گاؤں بھورا کلاں میں جمع ہوئے ، تمام کسان بہت مختصر نوٹس پر یہاں پہنچے ، ان کے ذہن میں تھا کہ آگے کی حکمت عملی بنانے کے لئے کسانوں کو بلایا گیا ہے ۔
جمع ہوئے کسانوں میں حکومت کے خلاف زبر دست ناراضگی نظر آئی، ایک کے بعد ایک مقرر نے حکومت کو برا بھلا کہا اور دھوکے باز بتایا ۔ گنےکی بقا یہ ادائے گی اور فصل کی صحیح قیمت نہ ملنے پر کسانوں کا غصہ عروج پر تھا۔
یاد رہے کہ بھارتیہ کسان یونین نے 23 ستمبر سے2 اکتوبر تک پیدل مارچ کا اہتمام کیا تھا جس میں ہزاروں کسان شامل ہوئے تھے ، کسانوں نے اپنے مطالبات کو لے کر دہلی میں داخلہ کی کوشش کی تو ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں اور پانی کی تیز بوچھاروں سے انہیں کھدیڑا گیا، حالات بگڑتے دیکھ کسانوں نے اپنے احتجاجی پیدل مارچ کو واپس لے لیا۔
بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان دھرمیندر ملک کے مطابق ٹکراؤ سے بچنے کے لئے وہاں سے واپس آ نے کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن حکومت نے ہمارے دو سب سے اہم مطالبات تسلیم نہیں کئے، ہمیں یہ بات بہت تکلیف دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں جو وعدے کئے تھے اس میں سے کوئی بھی پورا نہیں کیا گیا، ان کے جھوٹ کی وجہ سے آج کسان اپنے کو ٹھگا سا محسوس کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گنے کی بقایہ ادائیگی ابھی باقی ہے۔ حکومت کی ہمدردیاں کسانوں کے ساتھ نہ ہوکر چینی مل مالکان کے ساتھ ہیں ، سی ٹو کا فارمولہ ابھی تک لاگو نہیں ہوا ہے ۔ ملک نے کہا کہ کسان اب نئی حکمت عملی کے ساتھ حکومت کو گھیرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ کسانوں کے حقوق اولین ترجیح میں شامل ہیں ۔اس پنچایت میں بھارتیہ کسان یونین کے جنرل سکریٹری راکیش ٹکیت بھی موجود تھے ، کسانوں نے ان کی موجودگی میں ہی حکومت کے خلاف اپنا غصہ اتارا۔
Published: undefined
اس موقع پر راکیش ٹکیت نے کہا ’’پیدل مارچ کے دوران کسانوں کا استقبال لاٹھیوں اور پانی کی بوچھاروں سے کیا گیا اور اب کسان بھی سال 2019میں برسر اقتدار جماعت کے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں گے ، انہیں دہلی کی کرسی پر بیٹھنے نہیں دیں گے‘‘۔
رسولی سے لگ بھگ40 کلومیٹر دور میرانپور اسمبلی حلقہ کے گاؤں بھوپا میں صبح 11 بجے لگ بھگ ایک ہزار کسان جمع ہوئے ان کا مرکزی ایشوگنے کی بقایہ ادائے تھی۔ یہ ایک چھوٹی پنچایت تھی لیکن اس طرح کی پنچایتیں مغربی اترپردیش میں خوب ہو رہی ہیں ۔ کسان رہنما منوج بلیان نے کہا کسان سال 2019 میں حکومت کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرے گا کیونکہ حکومت کے تمام وعدے جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔
واضح رہے مغربی اتر پردیش کی سیاست میں گنے کا اہم کردار ہے اور یہاں کی اقتصادیات کا نصف سے زیادہ حصہ گنے پر منحصر ہے۔ گنے کے معاملے کو لے کر ہی کئی لوگ بڑے رہنما بن چکے ہیں ، جبکہ ہمیشہ سے یہ ایک مسئلہ ہی بنا ہوا ہے ۔ اس بار حکومت نے 14 دن کے اندر گنے کی ادائیگی کا وعدہ کیا تھا، مگر ایسا نہیں ہوا ۔ گنے کے معاملے میں جانکاری رکھنے والے شاملی کے کسان جتندر ہڈا کے مطابق گنے کی ادائیگی کے 11 ہزار کروڑ روپے اب بھی باقی ہیں۔ جوکہ کسانوں کے لئے ایک بڑی رقم ہے ، کیونکہ کسان انہیں روپیوں سے اپنی بیٹی کی شادی، اسکول کی فیس اور دیگر ضروری کام کرتا ہے۔
حکومت نے 8500 کروڑ روپے کے پیکج کا اعلان کیا ہے جبکہ بقایا رقم 22 ہزار کروڑ روپے ہیں ۔ اس سال جنوری سے مئی تک کسانوں نے جو گنا ملوں کو دیا ہے اس کا بھی پیمنٹ باقی ہے ، اب گنے کی نئی فصل تیار کھڑی ہے ، ملیں ابھی بند ہیں ۔ اگر ملوں کو جلدی شروع نہیں کیا گیا تو یہ ایک بڑا مسئلہ بن جائے گا کیونکہ گنا جلدی سوکھنے لگتا ہے ۔
مظفر نگر کے کسان راجپال سنگھ بتاتے ہیں کہ ’’میں نے 10 بیگھہ زمین پر گنے کی کھیتی کی اور 5 لاکھ روپے کا گنا مل کو سپلائی کیا ، مل سے مجھے صرف سوا لاکھ روپے کی ادائیگی ہوئی ، باقی رقم کے لئے اب میں انتظار کر رہا ہوں ، بچوں کی اسکول فیس ادا نہیں ہو پا رہی ہے ، بچوں کی دوائیں بھی ادھار لانی پڑ رہی ہے ،جس کی وجہ سے شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے جس کے سبب غصہ بھی آتا ہے‘‘۔راجپال اکیلے ایسے کسان نہیں ہیں جو اس طرح کی مالی دشواریوں کا سامنا کرہے ہیں بلکہ ان جیسے35 لاکھ کسان اور ہیں۔
25 ستمبر کو اتر پردیش کے گنا کمشنر سنجے ریڈی کوالہ آباد ہائی کورٹ نے کسانوں کی بقایہ رقم کی ادائیگی نہ کرنے کے سلسلے میں ہتک عزت کا نوٹس جاری کیا ہے جو کہ کسان رہنما وی ایم سنگھ کی ایک عرضی پر دیا ہے ۔ واضح رہے وی ایم سنگھ کسانوں کی قانونی لڑائی کے لئے مشہور ہیں ۔
کسان جگہ جگہ جمع ہو رہے ہیں اور کئی جگہ پر تو بی جے پی رہنماؤں کے گاؤں میں داخلہ پر پابندی لگا دی ہے ۔کسانوں کا ایک اور بڑا مسئلہ بجلی ہے جس کی بڑھتی قیمتوں کو لے کر لوگ پریشان ہو چکے ہیں ۔ کسانوں نے 25 اکتوبر تک چینی ملوں کو چلانے کا نوٹس دیا ہے ، اگر چینی ملیں معینہ مدت میں چالو نہیں کی جاتیں تو کسان نے گنوں کو کلیکٹر دفتر میں بھرنے کی دھمکی دی ہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ کسان اندرونی اختلافات بھلاکر ان ایشو پر ایک ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined