نئی دہلی: ملک میں اکثریتی رول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلم پرسنل لا ءخواتین ونگ کی سربراہ ڈاکٹر اسماء زہرانے الزام عائد کیا ہےکہ اکثریت کی جانب سے اقلیتوں کے حقوق چھیننے کی کوشش کی جارہے ہیں۔ یہ بات انہوں نے تین طلاق بل کے خلاف منعقدہ مسلم پرسنل لا ءبورڈ خواتین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے دعویٰ کیاکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ملک کے ادارے کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اسی کے ساتھ ہماری تہذیب و تمدن، ہماری شریعت، ہمارے حجاب اور خواتین پر حملہ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ شریعت اللہ کا نازل کردہ نظام اور قانون ہے اور اس میں کسی طرح کی ترمیم و اضافہ ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے قران کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ جو بھی اللہ کے نظام میں مداخلت کرتا ہے وہ ظالم ہے۔
تحفظ شریعت کی وکالت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ گزشتہ چند برسوں میں جان بوجھ کر تین طلاق کا مسئلہ میڈیا کے ذریعہ اٹھایا گیااور اس کے بہانے پورے ملک میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ شریعت میں سب سے بڑا مسئلہ تین طلاق ہے اور اس کو ختم نہیں کیا گیا ہے تو مسلم خواتین ظلم کا شکار ہوتی رہیں گی۔
رکن مسلم پرسنل لا بورڈ محترمہ زہراء نے مسلم خواتین کے حکومت کے خود انحصاری کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ مسلم خواتین ملک میں گوناگوں مسائل سے دوچار ہیں لیکن حکومت ان مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتی جب کہ تین طلاق مسلم خواتین کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ طلاق ایک رحمت ہے جو ساتھ رہنا نہیں چاہتے وہ طلاق کے ذریعہ الگ ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد ی کے بعد ہندو خواتین کے لئے طلاق کا قانون بنایا گیا۔
انہوں نے تین طلاق بل کی حامی خواتین اور ان کی تنظیموں کو فرضی قرار دیتے ہوئے کہا کہ زمینی سطح پر ان کا کوئی وجود نہیں ہے اور ہم نےبڑے پیمانے پر اپنے وجود کا مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ انہوں نے کہاکہ تین طلاق بل کے خلاف اگر ضرورت پڑی تو ہم سب خواتین سڑکوں پر اتریں گی۔ انہوں نے میڈیا کے دوہرے معیار کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ خواتین کے حقیقی مسائل سے انہیں کوئی تعلق نہیں ہے اور میڈیاخواتین کے تمام مسائل کو تین طلاق سے جوڑ دیتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس موقع پر ہم خواتین تین طلاق بل کے خلاف قرار دادمنظور کرتی ہوں۔
چنئی سے رکن مسلم پرسنل لاء بورڈ کی رکن ڈاکٹر فاطمہ مظفر نے کہاکہ تین طلاق بل کی ہر سطح پر مخالفت کی جانی چاہئے کیوں کہ یہ بل مسلم خواتین کو گمراہ کرنے والا اور ناانصافی کرنے والا ہے۔ اس بل میں تین سال کی سزا اور غیر ضمانتی ہے جس کا مقصد مسلم مردوں کو جیل میں ڈالنا ہے۔انہوں نے مسلم خواتین کے تئیں ہمدردی اور حکومت کی نیت پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اگر حکومت انصاف کرنا چاہتی ہے تو وہ احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری اورفساد کی شکار خواتین کے ساتھ انصاف کرنا چاہئے۔
رکن مسلم پرسنل لاء بورڈ ڈاکٹر تسنیم فرزانہ نے اس بل کی مخالفت اور شریعت میں اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے لئے شریعت اہم ہے ۔انہوں نے کہاکہ حکومت مسلم خواتین کے تحفظ کی بات کرتی ہے جب کہ یہاں خواتین کو ہر سطح پر ظلم و تشددکا سامنا ہے اور وہ نہ تو تعلیم کی جگہ، نہ دفتر، نہ سڑک اور نہ گھر میں محفوظ ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جوخواتین اس بل کے حق میں ہیں ان کو معلوم نہیں ہے یا وہ بہکاوے کا شکار ہیں۔
لکھنو کی سمیہ نعمانی نے تین طلاق بل کے منظر اور پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ انگریزوں کے دور میں مسلم پرسنلء ایکٹ بناتھا اور اس طرح انگریزوں کے دور میں بھی شریعت پر ڈاکہ نہیں ڈالا گیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ شریعت میں مداخلت ناقابل برداشت ہے اور حکومت کو اس میں کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔لکھنؤکی ہی محترمہ نگہت نے اس بل کو جلدی میں لایا گیابل قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہ بل مسلم خواتین کے ساتھ دھوکہ ہے۔ ہم عورتیں اس کے خلاف آوازاٹھائیں گی۔
ڈاکٹر عطیہ صدیقی رکن مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جماعت اسلامی خواتین ونگ کی صدر نے مسلم خواتین میں تبدیلی لانے پر زور دیتے ہوئے کہاکہ ہمیں شریعت پر عمل کے ساتھ معاشرے میں بیداری اور تبدیلی لانے پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ انہوں نے مسلم خواتین اور مسلمانوں سے اپنے مسائل کو عدالت میں نہ لے جانے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ وہ اپنے معاملات اور خاص طور پر عائلی معاملات دارالقضا اور یا مشاورت سنٹر لے کر جائیں۔
اس کے علاوہ دیگر خواتین مقررین میں خورشیدہ بیگم، مہرالنسا، ڈاکٹر صوفیہ بھوپال رکن مسلم پرسنل لاء بورڈ ، داکٹرمہ جبیں ناز اور دیگر ممتاز خواتین نے اس اجلاس سے خطاب کیا۔ نظامت کے فرائض پروگرام کی کنوینر ممدوحہ ماجد رکن مسلم پرسنل لاء بورڈ نے انجام دیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز