آئینی قدروں کا مخالف شہریت ترمیمی بل، جس میں مذہب کی بنیاد پر دوسرے ممالک کے شہریوں کو شہریت دینے کی بات کہی جا رہی ہے، اس کی زبردست مخالفت ہو رہی ہے
By قومی آواز بیورو
تصویر سوشل میڈیا
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے آج لوک سبھا میں متنازعہ شہریت ترمیمی بل پیش کر دیا ہے۔ اس بل کے مطابق دوسرے ممالک سے آنے والے مہاجرین کو جن ضابطوں کے تحت شہریت دی جائے گی ان ضابطوں کو پوری طرح بدل دیا جائے گا۔حزب اختلاف نے اس بل کی مخالفت کی ہے اور جن ضابطوں پر اس کی مخالفت کی جا رہی ہے وہ دس نکات مندرجہ ذیل ہیں۔
Published: 09 Dec 2019, 12:40 PM IST
مودی حکومت جو نیا بل لا رہی ہے اسے شہریت ترمیمی بل 2019 کا نام دیا گیا ہے۔اگر یہ بل ایوان میں منظور ہو جاتا ہے تو اس سے ملک میں 1955 سے موجود شہریت کے قانون میں تبدیلی آ جائے گی۔
Published: 09 Dec 2019, 12:40 PM IST
نئے بل کے تحت افغانستان، بنگلہ دیش، پاکستان اور دیگر ممالک سے آنے والے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی مہاجرین کو ہندوستان کی شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے لیکن اس میں مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے۔
Published: 09 Dec 2019, 12:40 PM IST
اس بل کے پاس ہونے کے بعد سبھی غیر مسلم مہاجرین کو غیر قانونی مہاجر قرار دیا جائے گا۔ موجودہ قانون کے مطابق غیر قانونی طریقہ سے آئے لوگوں کو ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے گا یا حراست میں لیا جا سکتا ہے۔
Published: 09 Dec 2019, 12:40 PM IST
نئے بل کے ضابطوں کے مطابق اب سبھی غیر مسلم مہاجرین کو ہندوستان کی شہریت پانے کے لئے کم سے کم چھ سال کا وقت ہندوستان میں گزارنا ہوگا پہلے یہ مدت گیارہ سال تھی۔
Published: 09 Dec 2019, 12:40 PM IST
نئے قانون کے مطابق شمال مشرق کی ریاست اروناچل پردیش، ناگا لینڈ، اور میزورم کے انر لائن پرمٹ ایریا کو اس بل سے باہر رکھا گیا ہے۔
Published: 09 Dec 2019, 12:40 PM IST
نئے قانون کے بعد افغانستان، بنگلہ دیش یا پاکستان اور دیگر ممالک سے آئے ہوئے کسی بھی ہندو، جین، سکھ، بودھ، عیسائی شہری کو غیر قانونی شہری نہیں مانا جائے گا، لیکن اس کے لئے کون سی تاریخ طے کی گئی ہے اس کی ابھی کوئی وضاحت نہیں ہے۔
Published: 09 Dec 2019, 12:40 PM IST
اس کے علاوہ اوورسیز سیٹیزن شپ آف انڈیا یعنی او سی آئی کارڈ ہولڈر اگر کسی قانون کی خلاف ورزی کریں گے تو انہیں اپنی بات رکھنے کا موقع دیئے جانے کی گنجائش ہے۔
Published: 09 Dec 2019, 12:40 PM IST
کانگریس سمیت تمام حزب اختلاف اور بی جے پی کی کچھ اتحادی پارٹیوں نے اس بل کی مخالفت کی ہے۔ ان پارٹیوں کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کا یہ بل ملک کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا کام کرے گا جو برابری کے قانون کے خلاف ہے۔
Published: 09 Dec 2019, 12:40 PM IST
شمال مشرق کی ریاستوں میں اس بل کی سخت مخالفت کی جا رہی ہے۔ وہاں کے لوگوں کا ماننا ہے کہ بنگلہ دیش سے زیادہ تر ہندو آکر آسام، اروناچل، منی پور جیسی ریاستوں میں بسے ہیں جس سے ان ریاستوں کا سماجی تانا بانا خراب ہو رہا ہے۔ شمال مشرق کی طلباء تنظیم اور پارٹیاں اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔
Published: 09 Dec 2019, 12:40 PM IST
این ڈی اے میں شامل بی جے پی کی اتحادی اسم گن پریشد نے بھی اس بل کی مخالفت کی ہے۔