انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ نے ہندوستان کے تعلق سے 19 فروری کو ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں مودی حکومت پر الزام عاید کیا گیا ہے کہ اس کی پالیسیاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو منظم انداز میں نشانہ بنانے اور ان کے خلاف امتیازی رویہ اپنانے والی ہیں۔ مسلمانوں کے تئیں بی جے پی کا تعصب پولیس محکموں اور عدالتوں تک میں داخل ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے قوم پرست گروپ مذہبی اقلیتوں کو ہدف بناتے، انھیں ہراساں کرتے اور انھیں دھمکیاں دیتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
Published: 21 Feb 2021, 9:11 PM IST
ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی ڈائرکٹر میناکشی گانگولی کا کہنا ہے کہ حکومت نہ صرف یہ کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے تحفظ میں ناکام ہے بلکہ وہ متعصب اور اقلیت دشمن طاقتوں کی سیاسی سرپرستی بھی کرتی ہے۔ حکومتی اداروں میں بی جے پی نظریات کے داخل ہو جانے کی وجہ سے قوانین کی حفاظت بھی نہیں ہو پاتی۔ رپورٹ نے 23 فروری 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فساد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسے ایک سال ہو گیا لیکن ایک طرف پولیس فساد کی غیر جانبدارانہ جانچ کرنے اور بی جے پی کے ان رہنماؤں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام ہے جن پر فساد بھڑکانے کا الزام ہے اور دوسری طرف وہ انسانی حقوق کے ان کارکنوں کو پریشان کر رہی ہے جو فساد کی غیر جانبدارانہ جانچ کی بات کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس فساد میں 53 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 40 مسلمان تھے۔
Published: 21 Feb 2021, 9:11 PM IST
دہلی کا فساد شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کے بعد بھڑکا تھا۔ رپورٹ کہتی ہے کہ بی جے پی لیڈروں اور ان کے حامیوں نے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مہم چلائی اور ان کو ملک دشمن قرار دیا۔ اسی طرح اب جبکہ کسانوں کی جانب سے متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف نومبر سے احتجاج ہو رہا ہے تو اب ایک اور اقلیت یعنی سکھوں کو ملک دشمن بتایا جا رہا ہے اور ان پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ ان کا تعلق علیحدگی پسند خالصتانی جماعتوں سے ہے۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے تحریک چلانے والوں کے خلاف بیان دیا اور انھیں طفیلی اور مفت خور قرار دیا اور کہا کہ ایسے لوگ ہر اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں کوئی آندولن چل رہا ہو۔ ان کے اس بیان پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور غیر جانبدار صحافیوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔
Published: 21 Feb 2021, 9:11 PM IST
رپورٹ میں 26 جنوری کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کے بعد پولیس نے صحافیوں اور دوسروں کے خلاف بے بنیاد الزامات کے تحت رپورٹ درج کی۔ مظاہرہ گاہوں پر انٹرنیٹ بند کر دیا گیا اور تقریباً بارہ سو ٹوئٹر اکاونٹس کو بند کرنے کا حکم دیا گیا۔ یاد رہے کہ حکومت کے حکم پر پہلے تو ٹوئٹر نے کچھ اکاونٹس بلاک کر دیئے مگر پھر انھیں بحال کر دیا تھا۔ اس کے بعد حکومت نے دوسرا حکم نامہ جاری کیا اور ٹوئٹر کو دوسری فہرست دی اور کہا اسے ہندوستان کے آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوگا ورنہ اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اس کے بعد ٹوئٹر نے تقریباً 97 فیصد اکاونٹس بلاک کر دیئے۔ جن میں صحافیوں، اپوزیشن رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور دانشوروں کے اکاونٹس بھی شامل ہیں۔
Published: 21 Feb 2021, 9:11 PM IST
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014 میں جب سے مودی حکومت اقتدار میں آئی ہے متعدد ایسے قوانین وضع کیے گئے ہیں جن سے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو جواز حاصل ہو گیا ہے اور کٹر اور نام نہاد قوم پرستوں اور ہندو کارکنوں کو اختیارات حاصل ہو گئے ہیں۔ حکومت کے اقدامات کی وجہ سے ملک میں فرقہ وارانہ نفرت اور اقلیتوں میں خوف و دہشت میں اضافہ ہوا ہے اور انتظامیہ پر ان کا اعتماد متزلزل ہوا ہے۔
Published: 21 Feb 2021, 9:11 PM IST
ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ میں متعدد فیصلوں کے حوالے دیئے گئے ہیں جن میں اترپردیش کا لو جہاد مخالف قانون بھی شامل ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ بی جے پی لیڈران اس قانون کا سہارا لے کر اس بے بنیاد نظریے کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ مسلم نوجوانوں نے ہندو لڑکیوں کے خلاف محبت کی آڑ میں ایک جہاد چھیڑ رکھا ہے۔ ان کا کام ہندو لڑکیوں کو دام محبت میں پھانسنا، ان سے شادی کرنا اور پھر ان کا مذہب تبدیل کروانا ہے۔ اس نظریے کے ماننے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کام کے لیے مسلم نوجوانوں کو خلیج سے پیسے ملتے ہیں اور ایک کیس پر دس لاکھ روپے دیئے جاتے ہیں۔ حالانکہ لو جہاد کے الزام کا کوئی ثبوت آج تک پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔ تاہم جب سے لو جہاد مخالف قانون منظور ہوا ہے متعدد مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔
Published: 21 Feb 2021, 9:11 PM IST
اس رپورٹ میں گئو رکشکوں کے حوالے سے بھی حقائق پیش کیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ بی جے پی سے وابستہ بہت سے ہندو گائے کے تحفظ کا قانون بنانے پر زور دیتے ہیں۔ کئی ریاستوں نے گائے کے تحفظ کا قانون بنایا ہے جس کا مقصد ہندو قوم پرستی کو بڑھاوا دینا اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اختیار کرنا ہے۔ ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جن میں گائے کے ذبیحہ کو قابل موخذہ جرم قرار دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں ہونے والے تشدد میں گرفتار ملزموں کو ہی خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2015 کے بعد گائے کے تحفظ کے نام پر گئو رکشکوں کی جانب سے ہونے والے حملوں میں کم از کم پچاس مسلمان ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔ بی جے پی لیڈران حملہ آوروں کی حمایت کرتے ہیں اور پولیس کی جانب سے مظلوموں کے خلاف ہی کیس قائم کر دیا جاتا ہے۔
Published: 21 Feb 2021, 9:11 PM IST
انسانی حقوق کی اس بین الاقوامی تنظیم نے تبلیغی جماعت پر کورونا وائرس پھیلانے کے الزام کا بھی ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ میڈیا نے اس کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف مہم چلائی اور کورونا جہاد وغیرہ کے عنوان سے رپورٹیں پیش کی گئیں جس کی وجہ سے ملک میں اسلاموفوبیا کا ماحول پیدا ہوا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنا۔ خیال رہے کہ حکومت نے تبلیغی جماعت کے لوگوں کو بدنام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی تھی اور تبلیغی جماعت والوں اور ان کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی۔ پولیس کی جانب سے ہزاروں تبلیغی کارکنوں کے خلاف رپورٹ درج کرکے انھیں جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔ لیکن عدالتوں میں کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہو سکا اور اب تقریباً تمام افراد بری اور رہا ہو چکے ہیں۔
Published: 21 Feb 2021, 9:11 PM IST
اس طرح انسانی حقوق کی اس بین الاقوامی تنظیم کی رپورٹ ایک طرح سے مودی حکومت کی کھتونی ہے جس میں اس کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں کہ کس طرح 2014 کے بعد سے لے کر اب تک مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان پر حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کس طرح حکومتی اداروں میں بی جے پی کے نظریات سرایت کر گئے ہیں اور کس طرح اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اقلیتوں میں زبردست خوف اور ان کے خلاف نفرت انگیز ماحول پیدا ہو گیا ہے۔
Published: 21 Feb 2021, 9:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 21 Feb 2021, 9:11 PM IST