قومی خبریں

مودی حکومت نے دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچے ’یَس بینک‘ میں لگا دیے پی ایم ریلیف فنڈ کے 250 کروڑ روپے

ریزرو بینک کے ذریعہ یَس بینک کی خستہ حالت سے متعلق متنبہ کیے جانے کے باوجود مرکز کی مودی حکومت نے اس بینک میں وزیر اعظم راحت فنڈ کے 250 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

وزیر اعظم قومی راحتی فنڈ نے تقریباً دیوالیہ ہو چکی یَس بینک میں 250 کروڑ روپے فکسڈ ڈپازٹ کے طور پر لگائے ہیں۔ حالانکہ ریزرو بینک نے اس سے پہلے ہی یَس بینک کو لے کر متنبہ کیا تھا۔ پی ایم ریلیف فنڈ کے مالی سال 20-2019 کے فنانشیل اسٹیٹمنٹ سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے۔ علاوہ ازیں فنڈ نے مختلف مد میں راحت کے لیے 222 کروڑ روپے کی ادائیگی کی ہے۔ ان میں فانی طوفان اور ملک کے مختلف حصوں میں سیلاب متاثرہ لوگوں کو پہنچائی گئی راحت شامل ہے۔ یَس بینک میں سرمایہ کاری کی بات سامنے آنے کے بعد اس فکر کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ مرکز کی مودی حکومت نے پی ایم راحت فنڈ کو ایک طرح سے کارپوریٹ میں بدل دیا ہے۔

Published: undefined

قابل ذکر ہے کہ ریزرو بینک نے 2019 کے شروع میں ہی یَس بینک کے لین دین پر پابندی لگائی تھی۔ یہاں تک کہ وزیر مالیات نرملا سیتارمن نے کہا تھا کہ یَس بینک کے مالیاتی لین دین اور طریقہ کار پر ریزرو بینک 2017 سے ہی نظر رکھے ہوئے ہے۔ 2018 میں بھی آر بی آئی نے بینک کو کوئی خط لکھ کر وہاں کے مینجمنٹ اور لین دین میں کئی قسم کی لاپروائیوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ آخر کار ریزرو بینک نے یَس بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او رانا کپور کو 31 جنوری 2019 کو عہدہ چھوڑنے کے لیے کہا تھا۔

Published: undefined

مارچ 2020 کے پہلے ہفتہ میں ملک کی دو بڑی کلیئرنگ فرموں، این ایس ای کلیئرنگ (این سی ایل) اور انڈین کلیئرنگ کارپوریشن (آئی سی سی ایل) نے اعلان کیا تھا کہ یَس بینک کے ذریعہ جاری کی گئی بینک گارنٹیاں اور فکسڈ ڈپازٹ قابل قبول نہیں ہوں گے۔ ایسے میں پی ایم راحت فنڈ کے ذریعہ یَس بینک میں فکسڈ ڈپازٹ کی شکل میں سرمایہ کاری کردہ 250 کروڑ روپیوں کا کیا ہوگا، یہ واضح نہیں ہے۔ اس کا انکشاف موجودہ مالی سال کا فائنانشیل اسٹیٹمنٹ سامنے آنے کے بعد ہی ہوگا۔

Published: undefined

اس معاملے پر کانگریس ترجمان سپریا شرینیت نے کہا کہ ہمیں حکومت سے سوال پوچھنا ہوگا کہ آخر ایک ایسے بینک میں حکومت نے پی ایم راحت فنڈ کا پیسہ کیوں لگایا جس کے بارے میں حکومت اور آر بی آئی کو پتہ تھا۔ علاوہ ازیں کانگریس کے ایک دیگر ترجمان گورو ولبھ، جو چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ بھی ہیں، نے کہا کہ فنڈ کے فنانشیل اسٹیٹمنٹ سے صاف ہے کہ 31 مارچ 2020 کو ختم ہوئے مالی سال کے دوران آئی ڈی ایف سی میں لگائے گئے 250 کروڑ روپے کی ایف ڈی میچیور ہو چکی تھی اور اسے یَس بینک میں لگا دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ یَس بینک پر بھاری این پی اے ہے، اسے زبردست مالی نقصان ہوا ہے، ایسے میں یَس بینک میں سرمایہ لگانا کارپوریٹ گورننس کے ضابطوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔

Published: undefined

پبلک فائنانس اکونومسٹ ارون کمار اس بارے میں کہتے ہیں کہ اس طرح کی سرمایہ کاری تبھی کی جاتی ہے جب حکومت کا کسی بینک میں یقینی ہی کوئی فائدہ ہو، اور اس معاملے میں یہ واضح نظر آ رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اس پیسے کو کسی سرکاری بینک میں لگاتی نہ کہ ڈوبنے کے دہانے پر پہنچی کسی پرائیویٹ بینک میں۔‘‘ ارون کمار انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز دہلی کے میلکم ایس ایڈیسیشیا چیئر پروفیسر ہیں۔

نیشنل ہیرالڈ نے اس سلسلے میں پی ایم راحت فنڈ کو کئی سوال بھیجے، لیکن ان کا کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ اگر حکومت کی طرف سے جواب آتا ہے تو اس خبر کو اس کے مطابق اَپ ڈیٹ کیا جائے گا۔

Published: undefined

بہر حال، ارون کمار نے اس بات کو نشان زد کیا کہ ہمیں فی الحال نہیں معلوم کہ یَس بینک میں جو پیسہ ڈالا گیا اس کا کیا ہوا۔ انھوں نے کہا کہ ’’اس کا مطلب ہے کہ لوگ بھگتیں گے۔ وبا کے دور میں اگر حکومت اس پیسے کو نکال کر راحتی سرگرمیوں میں لگانا چاہتی تو ایسا ممکن نہیں ہو پاتا۔‘‘

کانگریس لیڈر گورو ولبھ کا کہنا ہے کہ بڑا سوال یہ ہے کہ آخر وزیر اعظم راحت فنڈ کے نام پر جمع کیے گئے پیسے کو اس طرح کے بینک میں ہی کیوں لگایا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اسے کسی محفوظ سرکاری بینک میں جمع کیا جا سکتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’’آخر یہ 250 کروڑ روپے ایس بی آئی میں کیوں نہیں جمع کرائے جا سکتے تھے۔ ویسے بھی یہ پیسہ تو لوگوں کے عطیہ سے آیا ہوا ہے، کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ آفت کے وقت میں حکومت اس کا استعمال لوگوں کو راحت دینے کے لیے کرے گی۔ کیا یہ ملک کے لوگوں کے یقین کے ساتھ دھوکہ نہیں ہے۔‘‘

Published: undefined

حال ہی میں جاری پی ایم راحت فنڈ کے فنانشیل اسٹیٹمنٹ سے سامنے آیا ہے کہ مالی سال 2020 میں حکومت نے 385 کروڑ روپے اسٹیٹ ڈیولپمنٹ قرض کے طور پر لگائے گئے ہیں۔ اسٹیٹمنٹ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ فنڈ میں صرف 15.7 فیصد ہی پیسہ ہے، حالانکہ حکومت نے فنڈ کی ویب سائٹ پر کہا ہے کہ راحت فنڈ میں 4393.19 کروڑ روپے ہیں، جو کہ غلط فہمی پیدا کرتا ہے۔

جس مالی سال کا اسٹیٹمنٹ ہے، اس سال کیرالہ، کرناٹک، مہاراشٹر اور گجرات وغیرہ ریاستوں میں سیلاب سے اور اڈیشہ میں فانی طوفان سے زبردست تباہی ہوئی تھی۔ لیکن حکومت نے ان سبھی معاملوں میں راحت کے لیے صرف 1.03 کروڑ روپے ہی خرچ کیے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی سال کورونا وبا کا دور تھا پھر بھی فنڈ نے میڈیکل امداد کے نام پر 161.03 کروڑ روپے ہی خرچ کیے ہیں۔

Published: undefined

اسٹیٹمنٹ سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے پی ایم راحت فنڈ سے 250 کروڑ روپے 19-2018 میں آئی ڈی ایف سی فرسٹ بینک میں لگائے تھے، لیکن اگلے ہی سال اس پیسے کو نکال لیا گیا اور اسے یَس بینک میں لگا دیا گیا۔ اسی سال حکومت نے پلی بار راحت فنڈ سے اسٹیٹ ڈیولپمنٹ لون میں بھی سرمایہ کاری شروع کی۔ اس مد میں حکومت نے کل 1301 کروڑ روپے لگائے، جس پر حکومت کو 41.75 کروڑ کا سود ملا۔ لیکن اسٹیٹمنٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کس اسٹیٹ فنڈ میں یہ سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ حکومت نے یہ سرمایہ کاری صرف بی جے پی حکمراں ریاستوں میں کی ہے یا پھر سبھی ریاستوں میں اس کی برابر کی حصہ داری ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined