دیوبند: کوتوالی دیوبند کے پاس دہرہ نامی گاؤں میں اسرار کو پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا۔ 18 جون کی شام کو پیش آنے والی اس واردات کے حوالہ سے اسرار کے بھائی گلفام نے ایف آئی آر درج کرائی ہے، جس کے مطابق اسرار کو کشیپ بستی میں اسکول کے نزدیک بابی، سونڈا، دھرم ویر، روہت، نتن، جوہرو، ستو، دھرمیندر، روی اور وجے سمیت تقریباً 25 حملہ آوروں نے لاٹھی، ڈنڈوں، سریوں اور دھاردار ہتھیاروں سے زد و کوب کر کے شدید طور پر زخمی کر دیا۔ اسپتال لے جاتے وقت اسرار زخموں کی تاب نہ لا سکا اور فوت ہو گیا۔ اس معاملہ میں تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ ایس ایس پی سہارنپور کے مطابق قصورواروں کو بخشا نہیں جائے گا اور وہ یقینی طور پر سلاخوں کے پیچھے ہوں گے، دھر پکڑ کے لئے کوششیں جاری ہیں۔
Published: undefined
گلفام نے اپنے بھائی کی موب لنچنگ کے اس واقعہ پر قومی آواز سے گفتگو کی اور اپنی روداد یوں بیان کی:
میرا بھائی اسرار (30) فرنیچر بنانے کا کام کرتا تھا اور کام کے سلسلہ میں اسے اکثر نزدیکی گاؤں میں جانا پڑتا تھا۔ میں بھی یہی کام کرتا ہوں۔ ہم دیوبند سے 3 کلومیٹر دور واقع املیا گاؤں کے رہائشی ہیں اور جس گاؤں میں یہ واقعہ پیش آیا اس کا نام دہرہ ہے اور وہ ہمارے گاؤں سے 8 کلومیٹر دور ہے۔ ہم چھ بھائی تھے لیکن ظالموں کی وجہ سے اب پانچ رہ گئے ہیں۔ اسرار مجھ سے چھوٹا تھا اور ڈیڑھ سال پہلے زچگی کے دوران اس کی بیوی فوت ہو گئی تھی۔ اس کی 6 سال کی بچی ندا، جس کے سر سے ماں کا سایہ پہلے ہی اٹھ چکا تھا، اب باپ کے سایہ سے بھی محروم ہو چکی ہے۔
Published: undefined
جمعرات کے روز دہرہ سے مجھے فون آیا تھا کہ تمہارے بھائی کو بھیڑ مار رہی ہے۔ ہم نے پولیس کو اطلاع دی اور فوری طور پر موقع واردات پر پہنچے مگر افسوس جب تک میرا بھائی ادھ مرا ہو چکا تھا۔ اس کے بدن کا کوئی حصہ حرکت نہیں کر رہا تھا۔ اس کو بے رحمی سے پیٹا گیا تھا۔ اس کی صرف سانس چل رہی تھیں لیکن زندگی کی علامات ختم ہو چکی تھیں۔ ہم لوگ پولیس کے ساتھ وہاں پہنچے تھے لیکن گاؤں کے کسی بھی فرد کو میرے بھائی کی حالت پر رحم نہیں آیا۔ انہوں نے ہمیں گالیاں دیں، بدتمیزی کی، یہاں تک کہ میرے تڑپتے ہوئے بھائی کو پانی بھی پلانے نہیں دیا گیا۔
Published: undefined
پولیس نے جب اسرار کی سانس چلتی ہوئی محسوس کی تو فوری طور پر اسے گاڑی میں ڈالا اور اسپتال لے جانے کی کوشش کی۔ اس پر گاؤں والے پولیس سے بھی دھکا مکی کرنے لگے، وہ پولیس کی گاڑی کے سامنے لیٹ گئے اور لکڑیاں کاٹ کر بیچ راستے میں ڈال دیں۔ گاؤں والوں کا الزام تھا کہ میرے بھائی اسرار نے 9 سال کے بچے کی گردان پر درانتی سے حملہ کیا ہے۔ جبکہ کچھ لوگوں کا الزام تھا کہ اس کی موٹر سائیکل کی ٹکر اس بچے کو لگی تھی اس کے بعد تنازعہ شروع ہوا۔
Published: undefined
دیوبند پولیس کے ساتھ آخر کار زخمی اسرار کو لے کر ضلع اسپتال سہارنپور پہنچے، لیکن ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا، کیونکہ اس نے راستہ میں ہی دم توڑ دیا تھا۔ میرے بھائی پر جس لڑکے پر حملہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے اسے میں نے اسپتال میں دیکھا، اس کے جسم پر ایسی چوٹ نہیں تھی کہ بدلے میں کسی کی جان لے لی جائے۔ ہماری تکلیف کا کون اندازہ لگا پائے گا؟ ہمارے بھائی کی لاش ہماری آنکھوں کے سامنے پڑی تھی اور اسے کیوں قتل کیا گیا یہ بھی ہمیں معلوم نہیں تھا!
Published: undefined
اس رات سہارنپور سے رکن پارلیمنٹ فضل الرحمن اور سابق رکن اسمبلی معاویہ علی جیسے رہنما ہمارے ساتھ رہے، عمران مسعود بھی لگاتار فون کرتے رہے۔ آخر کار ہم نے اپنے بھائی اسرار کو نم آنکھوں سے دفن کر دیا۔ ہندو-مسلمان سب ہم سے تعزیت کے لئے پہنچ رہے ہیں اور سبھی کا ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ کیا اسرار کو اس کے مسلمان ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا ہے؟ میں کہتا ہوں نہیں، اگر ایسا ہوتا تو ہمارے ہندو بھائی کیوں ہمارے گھر آتے اور افسوس کا اظہار کرتے؟
Published: undefined
میرے بھائی کی موت کا ذمہ دار لوگوں کے ذہنوں میں بھرا وہ غصہ ہے جسے میڈیا نے پیدا کیا ہے۔ ٹی وی چینلوں نے لوگوں کو قاتل بنا دیا ہے۔ یہ لوگ پہلے ایک شریف انسان پر غلط الزامات عائد کرتے ہیں اور اس کے ہاتھ پیر باندھ کر بری طرح مارتے پیٹتے ہیں۔ یہ کیسے لوگوں ہیں، جن کے دل میں ذرا رحم نہیں آتا! اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ قاتلوں کی بھیڑ میں کئی لوگ ایسے تھے جو میرے بھائی سے واقف تھے لیکن اسے کسی نے نہیں بچایا۔ میں لوگوں سے اپیل کرتا ہوں خدارا، ہندو مسلم کے نام پر نفرت مت بھڑکاؤ، درندوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز