یہ کوئی نئی یا عجیب بات نہیں ہے، جمہوریت میں کئی مرتبہ وہ پارٹی اقتدار میں آجاتی ہے جس کو اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہوتی، کیونکہ اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعت کے خلاف ووٹ تقسیم ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ پارٹی اقتدار میں آجاتی ہے۔ کئی مرتبہ عوام کا فیصلہ بہت واضح بھی ہوتا ہے اور ان کی رائے سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ ملک کی اکثریت کس کے حق میں ہے۔ ہمارے ملک میں ایسا اکثر دیکھا گیا ہے اور اس کی وجہ سے کئی مرتبہ مخلوط حکومتوں کا بھی دور آیا ہے اور کئی اتحاد بھی بنے ہیں۔
Published: undefined
کبھی کانگریس کی قیادت میں، کبھی بی جے پی کی قیادت میں اور کبھی دیگر کسی جماعت کی قیادت میں مخلوط حکومتیں قائم ہوئی ہیں اور دھیرے دھیرے دو اتحاد سامنے آئے، جس میں ایک کو سیکولر اتحاد کہا جانے لگا اور دوسرے کو دائیں محاذ والا یا بی جے پی کی قیادت والا اتحاد کہا جانے لگا۔ آزادی کے بعد عوام نے جس پارٹی کے ہاتھ میں اقتدار کی باگ ڈور سونپی تھی وہ کانگریس تھی۔ جیسے جیسے ملک آگے بڑھنے لگا ویسے ویسے حکومت سے ناراضگی، بر سر اقتدار جماعت میں تقسیم، نئی نئی علاقائی اور طبقوں کی سیاسی پارٹیوں کے جنم سے ملک میں واضح اکثریت کا چلن کم ہو گیا نتیجے میں اتحاد اور مخلوط حکومتوں کا چلن بڑھ گیا۔ اس سفر میں دایاں محاذ نہ صرف مضبوط ہوا بلکہ اس نے کانگریس کو اقلیتوں کی پارٹی بنا کر پیش کرنے اور خود کو ہندوتوا کا علمبردار بتانے میں کامیابی حاصل کی اور کہیں نہ کہیں وہ اور اس کے مخالف والا ماحول بنا دیا۔
Published: undefined
کانگریس جس کو اقلیتوں کی ہمدرد کے طور پر پیش کرنے میں دایاں محاذ کامیاب رہا اس کو ملک کی اکثریت نے بہت پیچھے دھکیل دیا۔ اگر زمین پر دیکھیں تو کانگریس جس کو اقلیتوں کا ہمدرد کے طور پر پیش کیا گیا اس کو اقلیتوں کی حمایت حاصل نہیں ہوئی۔ ملک کی وہ ریاستیں جہاں اقلیتوں کی تعداد خاصی ہے وہاں پر یا تو دایاں محاذ بر سر اقتدار ہے یا پھر علاقائی پارٹی۔ مغربی بنگال میں اقلیتیں کانگریس کو ووٹ نہیں دیتیں، نتیجے میں پہلے بایاں محاذ اور اب ترنمول کانگریس بر سر اقتدار ہے۔ بہار میں جہاں اقلیتوں کی خاصی آبادی ہے وہاں کانگریس کو اقتدار سے گئے ہوئے ایک لمبا وقت گزر گیا۔ اتر پردیش جہاں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ریاست کی اقلیت جس جانب جائیں گی اسی کی حکومت بنے گی، لیکن ایسا نہیں ہے ابھی وہاں پر دائیں محاذ کی حکومت ہے اور اس سے پہلے سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی حکومتیں تھیں اور کانگریس کو اقتدار سے بے دخل ہوئے ایک عرصہ ہو گیا ہے۔ آسام کا بھی یہی حال ہے اور ملک کی راجدھانی دہلی کا بھی یہی حال ہے۔ اس سے یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ کانگریس کو جو اقلیتوں کی پارٹی کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے وہ دراصل کانگریس سے ملک کی اکثریت کو دور کرنا اور اقلیت و اکثریت میں واضح تفریق پیدا کرنا رہا ہے۔
Published: undefined
اقلیتوں کو بھی کسی پارٹی سے شکایت نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اس کا فیصلہ انہوں نے خود کیا ہے کسی اور نے ان پر تھوپا نہیں ہے۔ اقلیتوں کے فیصلوں میں کبھی دور اندیشی نظر نہیں آئی اور انہوں نے اکثر وقتی تقاضوں اور غصے کی وجہ سے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے جس کے نتیجے ان کے لئے کبھی اچھے ثابت نہیں ہوئے۔ اس کو یوں کہنا ہی صحیح ہوگا کہ انہوں نے کبھی مولانا عبدالکلام آزاد کی دور اندیشی سے کام نہیں لیا۔
Published: undefined
یہ وہ وقت ہے جب وہ اپنے فیصلوں سے دوبارہ اپنی اور ملک کی گاڑی پٹری پر لا سکتے ہیں۔ ملک کی ترقی میں ان کا بہت اہم کردار ہے اور ان کو اس کردار کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے آج ان کے فیصلے سے وقتی نقصان ہو لیکن بعد میں یہی فیصلہ ان کے حق میں ثابت ہوگا۔ اگر آج انہوں نے علاقائی اور مذہبی پارٹیوں کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کیا تو ان کا اور ملک کا مستقبل بدلنے والا نہیں ہے۔ اقلیتیں جو نہ صرف محب وطن ہیں بلکہ کسی ایک جماعت سے ان کی وابستگی کبھی نہیں رہی ان کو سوچنا ہوگا اور اپنی رائے کا اظہار ملک کے روشن مستقبل کے لئے کرنا ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز