اتوار کی شام دہلی کے جامعہ یونیورسٹی میں لاٹھی چارج کر رہی پولس کے سامنے دلیری کے ساتھ کھڑی ایک طالبہ کی تصویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوا۔ یہ طالبہ اپنے ایک ساتھی طالب علم کو بچانے کے لیے پولس والوں کے اس گروپ کے سامنے کھڑی ہو گئی جو بے رحمی سے لاٹھیاں برسا رہے تھے۔ اس طالبہ کے ساتھ کچھ طالبات اور تھیں جو طالب علم کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا تاکہ پولس اسے پیٹ نہ سکے اور ایک لڑکی پولس والوں کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ اس دلیر طالبہ کا نام ہے عائشہ رینہ۔
Published: undefined
حجاب پہنے عائشہ رینہ کا نام اس وقت ہر کسی کی زبان پر ہے۔ وائرل تصویر میں عائشہ کے ٹھیک پیچھے لدیدا شکلون نظر آ رہی ہیں اور جس طالب علم کو پولس بے رحمی سے لاٹھیوں سے پیٹ رہی تھی اس کا نام شاہین عبداللہ ہے۔ یہ سبھی کیرالہ کے رہنے والے ہیں۔ جامعہ کے شعبۂ تاریخ میں پوسٹ گریجویشن کی طالبہ 22 سال کی عائشہ بتاتی ہیں کہ ’’اتوار کو ہو رہے مظاہرے میں ہم سامنے نہیں تھے۔ سرائے جلینا میں مظاہرین کے ذریعہ جو مارچ نکالا گیا اس میں ہم سب سے آخر میں تھے۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ سبھی اسٹوڈنٹس دوڑ رہے ہیں۔ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے۔ تبھی پولس نے آنسو گیس کے گولے داغنے شروع کر دیئے۔ ہم بھی اس کے بعد پیچھے ہٹ گئے۔ ہم نے ایک درخت کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی، لیکن پولس نے ہمیں دیکھ لیا۔ اس دوران استھما کی مریض لدیدا کو آنسو گیس کی وجہ سے سانس لینے میں دقت ہونے لگی۔ اس کی خراب حالت کو دیکھ کر ہم ایک گھر میں دوڑ پڑے تاکہ پولس ہم پر حملہ نہ کرے۔‘‘
Published: undefined
کیرالہ کے ملپورم کی رہنے والی طالبہ کا کہنا ہے کہ ہمیں امید تھی کہ پولس ہم پر حملہ نہیں کرے گی کیونکہ ان کے ساتھ کوئی خاتون اہلکار نہیں تھی۔ لدیدا بتاتی ہیں کہ ’’استھما کی وجہ سے مجھے سانس لینے میں پریشانی ہو رہی تھی۔ ہمارے ساتھ دو اور طالبات تھیں جنھیں پولس نے پیٹا تھا، اور انھیں فرسٹ ایڈ کی ضرورت تھی۔ ہم یہ سوچ کر گھر میں گئے کہ ہم وہاں محفوظ رہیں گے۔ لیکن پولس نے ہمارا پیچھا کیا۔ یہ دیکھ کر ہم نے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ ہمیں لگا تھا کہ مرد پولس والے طالبات پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گے۔ لیکن ہم غلط تھے، انھوں نے بے رحمی سے لاٹھیاں چلانی شروع کر دیں۔‘‘ لدیدا کنّور کی رہنے والی ہیں اور جامعہ میں عربک اسٹڈیز میں انڈر گریجویٹ کورس کی طالبہ ہیں۔
Published: undefined
مشکل وقت میں اپنی بہادری کا مظاہرہ کرنے والی عائشہ نے بتایا کہ ’’شاہین ہمیں ڈھونڈتا ہوا اس جگہ پر آیا تھا اور جب وہ ہماری مدد کر رہا تھا تبھی پولس والوں نے ہم پر حملہ کر دیا۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’’ہم اپنے آس پاس موجود لوگوں کے تحفظ کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے۔ ہم ڈرنے والے نہیں ہیں۔ ہم صرف اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر ہم اب کھڑے نہیں ہوئے تو کب کھڑے ہوں گے۔‘‘
Published: undefined
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ شاہین جامعہ کے ماس میڈ یاریسرچ سنٹر کے کنورجینٹ جرنلزم سے پوسٹ گریجویشن کر رہا ہے اور ایک آزاد صحافی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے ان طالبات کی فکر تھی کیونکہ یہ کہیں نظر نہیں آ رہی تھیں۔ جب وہ انھیں ڈھونڈتا ہوا آیا تو پولس نے حملہ کر دیا۔ وہ بتاتا ہے کہ ’’میں نے انھیں بتانے کی کوشش کی کہ میں ایک صحافی ہوں، لیکن انھوں نے کسی کی نہیں سنی۔ وہ صرف ہمیں پیٹنا چاہتے تھے۔‘‘
Published: undefined
اس واقعہ کے بعد یہ سبھی ہولی فیملی اسپتال پہنچے جہاں لدیدا کو آکسیجن لگانی پڑی تھی اور باقیوں کو فرسٹ ایڈ دینا پڑا تھا۔ لدیدا اور عائشہ دونوں کا ماننا ہے کہ چونکہ ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا وہ ریکارڈ ہو رہا تھا، اس لیے وہ بچ گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’اچھا ہوا کہ وہاں کچھ لوگ تھے اور ریکارڈنگ کر رہے تھے۔ پولس والوں کے ساتھ ایک آدمی اور تھا جو لاٹھی چلا رہا تھا۔ بغیر وردی کا وہ آدمی کون تھا یہ پتہ نہیں۔‘‘
Published: undefined
ان سبھی طالبات کے گھر والے اس لڑائی میں ان کے ساتھ ہیں۔ عائشہ کا شوہر اصل رحمن ایک آزاد صحافی ہے۔ دو تین دن پہلے ایک اور تحریک میں پولس نے اس کی بھی پٹائی کی تھی۔ عائشہ نے بتایا کہ ’’میرے شوہر اتوار کو میرے ساتھ نہیں تھے، لیکن وہ بھی ان احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے گھر والے بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ شہریت قانون آنے سے کس طرح کی تقسیم ہوگی۔ یہ ہمارے حقوق کو چھیننے والا قانون ہے۔‘‘ لدیدا بھی بتاتی ہیں کہ اس کے والدین انصاف کے لیے لڑائی میں ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔
Published: undefined
غور طلب ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم اس شہریت قانون کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں جس میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے غیر مسلموں کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے۔ اس قانون کے خلاف آواز اٹھانے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون مذہب کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے جو کہ ہندوستانی آئین کے خلاف ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز