ہندستان میں اردو میڈیا کو اس لحاظ سے ممتاز مقام حاصل ہے کہ اس نے برصغیر کو کسی ہندستانی کے ذریعہ سب سے پہلے 19ویں صدی کے اوائل میں کوئی اخبار دیا، تحریک آزادی کا بگل بجایا اور اپنے وجود نیز اپنے ایک ایڈیٹر کی جان کی قربانی دے کر اس کی قیمت چکائی۔یہ بات اسلامک فقہ اکیڈمی کے زیر اہتمام ’ہندستان کی مسلم صحافت: آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد‘ کے موضوع پر منعقدہ محاضرہ میں سہ لسانی سینئر صحافی اور مصنف اے یو آصف نے کہی۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ اتنا ہی نہیں زندگی کے ہر ایک شعبہ و زبان اور ہر ایک خطہ میں اپنی موجودگی درج کرائی اور ملک و ملت کی تعمیر نو میں حصہ لیا لیکن اس کریڈٹ کے باوجود آج یہ بحیثیت مجموعی وہ اثر و رسوخ قائم نہیں کرپایا جو کہ اسے کرنا چاہئے تھا، ایک دبے، کچلے اور مالی بحران کے شکار میڈیا کے طور پر دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جانب توجہ دی جائے کیونکہ کسی بھی ملک و ملت کی ترقی اور امپاورمنٹ کا دارومدار اس پر ہوتا ہے کہ اس کا میڈیا کتنا بیدار، چوکنا، معروضی اور بامقصد ہے۔
Published: undefined
اے یو آصف نے غدر 1857 سے قبل اُس صدی کے اوائل میں شروع ہوئے اردو میڈیا کی تفصیلی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے میرٹھ سے اٹھی تحریک آزادی میں اس کے سب سے نمایاں کردار کو سراہا اور بعد ازاں اردو کے علاوہ ملک کی تمام اہم زبانوں میں اس کی موجودگی کا ذکر کیا، انہوں نے کہا کہ مذہبی امور ہو یا سیاست،معاشرت ہو یا تعلیم، تجارت ہو یا صنعت، صحت اور کھیل کود ہو یا فلم انڈسٹری، زندگی کے ہر شعبہ میں یہ موجود ہے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ ایک زمانہ میں سیاست میں عثمان اسد کے ہفتہ وار ’نشیمن‘ اور غلام سرور کے روزنامہ ’سنگم‘ نے تہلکہ مچایا، حتی کہ 1967ء میں ریاست بہار میں کے بی سہائے کی کانگریس حکومت کا تختہ پلٹنے میں روزنامہ سنگم نے کلیدی کردار ادا کیا اور ’جگر کے ٹکڑے کی کال دینے والے مہامایہ پرساد اور کرپوری ٹھاکر کو برسراقتدار کردیا۔ اسی طرح علمی و تحقیقی طورپر 20ویں صدی کے اوائل میں محمد علی جوہر کے ’کامریڈ‘، ’ہمدرد‘، اور ابو الکلام آزاد کے ’الہلال‘ و ’البلاغ‘ نے اپنا لوہا منواتے ہوئے تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون کے علاوہ آزادی کی تحریک میں زبردست رول ادا کیا۔
Published: undefined
صدارتی ریمارکس میں ڈاکٹر عبد القادر خان نے فاضل مقرر و صحافی اے یو آصف کی اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ملک کے مختلف خطوں اور زبانوں میں پھیلے ہوئے مسلم میڈیا کے حلقہ اثر کو مزید مؤثر اور مستحکم بنانے کے لئے مختلف زبانوں میں اپنے اپنے روزنامے کی ضرورت ہے،جبکہ فی الوقت صرف ملیالم، گجراتی اور بنگلہ میں ایک ایک روزنامہ پایا جاتا ہے جو کہ مقبول عام بھی ہے۔اور ان کا الگ الگ سرکولیشن لاکھوں میں ہے، دوسری زبانوں بشمول اردو، ہندی اور انگریزی میں بھی ملک گیر سطح کے بااثر اخبارات کی ضرورت ہے، یہ المیہ ہے کہ انگریزی کے اخبار کی متعدد کوششیں ہوئیں، لیکن روزنامہ سے مسلم میڈیا محروم رہا، اسی طرح اپنا کوئی ٹی وی چینل بھی ہنوز خواب ہی بنا ہوا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined