پھر وہی مندر مسجد قضیہ، پھر وہی ہندو مسلم تکرار، کیونکہ راقم الحروف نے سن 1986 میں بابری مسجد کا تالا کھولنے کے بعد سے سن 1992 میں بابری مسجد کے ڈھائے جانے تک پورے معاملات بطور ایک صحافی اتنے قریب سے دیکھے اور رپورٹ کئے کہ اب گیان واپی مسجد وارانسی اور متھرا عید گاہ کے سلسلہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کو دیکھ کر محسوس ہو رہا ہے کہ گویا ایک پرانی فلم پھر دیکھ رہے ہیں۔ جیسےایودھیا میں سب کچھ عدالتوں کے کاندھوں پر سوار ہو کر ہوا بے عین ہو وارانسی اور متھرا میں بھی سب کچھ عدالتوں کے ذریعے ہی ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے گیان واپی مسجد کے معاملہ میں وہی فیصلہ دیا ہے جو رام للا کے پرکٹ ہونے کے بعد ایودھیا کی عدالت نے دیا تھا۔ نماز جاری رہے گی لیکن جہاں پر شیو لنگ ملا ہے اس جگہ کو محفوظ رکھا جائے۔ بابری مسجد میں بھی سن 1960 کی دہائی تک نماز ہوتی رہی۔ پھر سن 1992 میں آخر مسجد گرا دی گئی۔ آخر میں سپریم کورٹ نے ایودھیا معاملہ میں مسلم فریقین کو تقریباً تمام باتیں تسلیم کیں لیکن فیصلہ ہندو فریقین کے حق میں ہوا۔ عقل مند کے لئے اشارہ کافی! عدالتوں کے رویہ سے صاف ظاہر ہے کہ وارانسی اور متھرا مساجد کے معاملہ میں کیا ہوگا۔ سپریم کورٹ سپریم ہے اور سپریم رہے گا لیکن یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ گیان واپی والے معاملہ میں سن 1990 کا جو قانون ہے کہ ایودھیا کے علاوہ 15 اگست 1947 کو ملک بھر کی عبادت گاہوں کی جو صورت حال ہے اس میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہں ہوگی، جو کچھ ہو رہا ہے اسے اس قانون کے تحت روکتا کیوں نہیں! عرض کیا نا کہ سپریم کورٹ سپریم ہے اور اس کے ہر فیصلہ کے آگے سر باصد احترام تسلیم خم ہے۔ لیکن ایودھیا کی طرح کاشی اور متھرا مساجد کا معاملہ بھی محض عقیدے سے نہیں بلکہ سیاست سے بھی گہرائی سے جڑا ہے۔
Published: 22 May 2022, 10:14 AM IST
اس پس منظر میں اگر گیان واپی اور متھرا عید گاہ پر ہونے والے ہنگامےپر نگاہ ڈالیں تو صاف ظاہر ہے کہ نریندر مودی سمیت پورا سنگھ پریوار سن 2024 میں ہونے والے لوک سبھا چناؤ کاشی متھرا کے نام پر ہی لڑنے والے ہیں۔ یعنی نفرت کی ہانڈی کی آگ چناؤ تک تیز سے تیز ہوتی جائے گی۔ اس بار مودی جی اورنگ زیب (مسلم فریق) کے خلاف شیو اجی (ہندو فریق) کا روپ لے کر کاشی اور متھرا کی مساجد کو مسلمانوں کے ہاتھو سے چھین کر ہندو عقائد کی برتری قائم کریں گے۔ بابر ی مسجدسے لے کر ابھی حالیہ یوپی اور دیگر ریاستوں میں ہونے والے چناؤ کے نتائج شاہد ہیں کہ بی جے پی کے لئے مندر مسجد کی حکمت عملی انتہائی کامیاب رہتی ہے۔ مودی جی سن 2024 میں پھر ایک بار ہندو ہردے سمراٹ کا روپ کیوں نہ لیں! الغرض یہ طے ہوگیا ہے کہ اگلا لوگ سبھا چناؤ بھی ہندو مسلم تکرار کی گونج میں ہی ہوگا۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔ کیونکہ عام ہندو ملک کے معاشی بحران سے حیران و پریشان ہے۔ مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ بے روزگاری کا سیلاب چل رہا ہے۔ ہر کس و ناکس پریشان ہے۔ بی جے پی کو ایک ایسا ایشو درکار ہے جس کے چلتے رہنے سے عام ہندو اپنی معاشی پریشانی بھول کر مسلمان کو ’ٹھیک‘ کرنے کی فکر میں لگا رہے۔ کاشی اور متھرا مساجد کے معاملوں سے بڑھ کراور کون سا ایشو ہوسکتا ہے جو ہندو عوام کو دھرم کے نشے میں مست رکھے اور وہ اپنی پریشانیاں بھول کر آخر بی جے پی کو مندر کے نام پر ووٹ ڈال دے۔
Published: 22 May 2022, 10:14 AM IST
اب اس صورت حال میں مسلم فریق کی کیا حکمت عملی ہونی چاہیے! عدالتوں کے رویہ سے ظاہرہے کہ ان کا فیصلہ کیا ہو سکتا ہے۔ اب بچی بات سڑکوں کی تو بابری مسجد معاملے میں بابری ایکشن کمیٹی بڑے بڑے جلسے و جلوس کر کے دیکھ چکی ہے۔ یہ حکمت عملی بی جے پی کو مدد کرنے والی حکمت عملی ہے۔ اس سے ہندو ردعمل پیدا ہوتا ہے اور پھر فسادات کی آگ بڑھکتی یا بھڑکائی جاتی ہے۔ آخر جو بی جے پی چاہتی ہے وہی ہوتا ہے، یعنی مسلمان عام ہندو کی نگاہ میں اس کا دشمن ہو جاتا ہے اور اس دشمن کو ہرانے کے لئے ہندو ووٹ بینک شدومد سے بی جے پی کی جھولی ووٹ سے بھر دیتا ہے۔ اس لئے یہ سمجھ لیجیے کہ جو مسلم لیڈر یا تنظیم کاشی، متھرا کی سیاست اور بیان بازی شدت سے کر رہی ہے وہ یا تو نا سمجھ ہے یا پھر وہ بی جے پی کے اشارے پر ایسا کر رہی ہے۔ اب کیجیے تو کیجیے کیا، کچھ بھی ہو عدالت کا رخ ہی کرسکتے ہیں۔ لیکن مسلم قائدین کے آئے دن پریس بیان، ٹی وی پر مسلم پارٹی کی جانب سے شرکت، سڑکوں پر جلسے جلوس ان تمام طریقوں سے بی جے پی کا ہی بھلا ہے۔ نہ تو خود ان چکروں میں پڑئیے اور نہ ایسا کرنے والوں کے بہکاوے میں آئیں۔ راقم یہ لکھتا رہا ہے کہ موجودہ صورت حال میں ہندوستانی مسلمان کے پاس رسول کریمؐ کی مکّی دور کی صبر کی حکمت عملی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ صبر سے کام لیجیے، حالات انتہائی ناسازگار ہیں، کسی بھی قسم کا اشتعال یعنی بلڈوزر سے روندا جانا اور ہندو ردعمل کا شکار ہونا ہے۔ بابری مسجد تو گئی، اب اللہ ہی کاشی اور متھرا کی حفاظت کرسکتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے بس میں ان مساجد کا تحفط نہیں ہے، صبر اور صرف صبر سے کام لیجیے۔
Published: 22 May 2022, 10:14 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 22 May 2022, 10:14 AM IST