بابری مسجد تنازعہ کو حل کرنے کی کوشش میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ خود تنازعات کا شکار ہو گیا ہے۔ بورڈ کے سابق رکن مولانا سلمان ندوی نے بورڈ سے ہٹائے جانے کے بعد الگ راہ اختیار کر لی ہے اور شری شری روی شنکر کے ساتھ مل کر بابری مسجد تنازعہ کا حل بات چیت کے ذریعہ نکالنے کے لیے پرعزم نظر آ رہے ہیں اور ان کے رویہ سے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ مندر وہیں بنوائیں گے ۔واضح رہے اس سے قبل جب بھی بورڈ نے مسجد کو لے کر صرف عدالت کے فیصلہ ماننے کی بات کی ہے اس میں مولانا سلمان پیش پیش رہے ہیں ۔ آج نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران انھوں نے بورڈ کے اندر شدت پسند لوگوں کی موجودگی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’بہت افسوس ہے کہ میرے بزرگ وہاں موجود ہیں لیکن لگتا ہے ایسے لوگوں کا بورڈ پر غلبہ ہو گیا ہے جو فساد اور تشدد باقی رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ انھوں نے اپنا نظریہ ایک بار پھر واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’’ جب کسی مسلک میں مسجد منتقل کرنے کی سہولت موجود ہے تو کیا قیامت آ جائے گی اگر مسجد دوسری جگہ بنا دی جائے۔ ملک میں فساد پیدا نہ ہو، خون نہ بہے، امن و بھائی چارے کا ماحول ہو، یہ کیا اچھا ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں لڑائی جاری رہے ۔‘‘
مولانا سلمان ندوی نے آج بابری مسجد کو محض ’اسٹرکچر‘ کہہ کر اس بات پر مایوسی ظاہر کی کہ مقدمہ اس اسٹرکچرکا نہیں بلکہ ان کا ہونا چاہیے جن کی موت فسادات کے دوران ہو گئی۔ انھوں نے کہا کہ ’’آپ مسجد کو بچا نہیں سکے، ہزاروں کی جانیں چلی گئیں۔ پہلے ان کی بہنوں کو، بیٹیوں کو، ماؤں کو ہرجانہ دلوائیے جن کی جانیں گئیں۔ آپ ان کا مقدمہ کیوں نہیں لڑ رہے، صرف ایک اسٹرکچر کا مقدمہ کیوں لڑ رہے ہیں۔‘‘ اپنے فارمولے کی حمایت کرتے ہوئے مولانا سلمان ندوی نے یہ بھی کہا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ میرا فارمولہ اپنایا جائے تو چند مہینے میں مسئلہ حل ہو سکتا ہے کیونکہ عدالت کو دیر لگتی ہے ہم لوگوں کو نہیں ۔‘‘
آج جب مولانا ندوی سےعدالت میں چل رہی سماعت کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے اس پر بھی مایوسی ظاہر کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’عدالت اس سلسلے میں کیا کر سکتا ہے، وہ تو صرف فیصلہ سنا دے گا کہ یہ پلاٹ کس کو ملنا چاہیے، لیکن اس سے کیا دل جڑ جائیں گے، ملک میں امن کا ماحول قائم ہو پائے گا؟ عدالت کے فیصلے سے ایک فریق جیتے گا اور دوسرا ہارے گا، لیکن آپس میں مل کر مسئلہ حل کرنے سے بھائی چارے کی فضا بنے گی۔‘‘
Published: 12 Feb 2018, 6:31 PM IST
بورڈ کی رکنیت سے ہٹائے جانے سے متعلق ان کا رد عمل جاننے کی جب کوشش کی گئی تو انھوں نے اس پر کسی طرح کی حیرانی ظاہر نہیں کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں نے تو پہلے ہی مختلف اخباروں اور میڈیا میں بیان دے دیا تھا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے علیحدگی اختیار کر رہا ہوں، اس کے بعد بورڈ نے مجھے ہٹا دیا تو افسوس کیسا۔ میں تو یہ فیصلہ پہلے ہی کر چکا تھا۔‘‘ اس سلسلے میں انھوں نے مزید بتایا کہ ’’مجھے بورڈ کی پہلی ہی میٹنگ میں احساس ہو گیا تھا کہ کچھ لوگ شدت پسند ہیں جو اپنی بات چلانا چاہتے ہیں اور پہلے سے فیصلہ کر چکے ہیں کہ مجھے ہٹانا ہے۔ اس لیے میں نے پہلے ہی علیحدگی اختیار کر لی۔‘‘
کیا آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ دو حصوں میں منقسم ہو جائے گا یا پھر کون لوگ ہیں جن کو ہٹا کر بورڈ میں موجودہ اجارہ داری کو ختم کیا جا سکتا ہے، اس سوال کے جواب میں مولانا ندوی نے کہا کہ ’’ بورڈ کی انتظامیہ میں پانچ سے سات افراد ایسے ہیں جو ذمہ دار ہیں جن میں مولانا رابع صاحب اور مولانا ارشد صاحب کو الگ کر دیجیے کیونکہ یہ لوگ بزرگ ہستیاں ہیں۔ اس کے علاوہ اوپر انتظامیہ میں جو لوگ موجود ہیں وہ سخت موقف رکھتے ہیں، بقیہ بورڈ کی اکثریت ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی اور ملک کی اکثریت بھی میرے ساتھ ہوگی... لیکن یہ نیا مسئلہ ہے اس لیے تھوڑا وقت لگے گا۔‘‘ بابری مسجد تنازعہ حل کرنے سے متعلق اپنا موقف بیان کرتے ہوئے انھوں نے آج ایک بار پھر کہا کہ ’’میں نے ہمیشہ کہا کہ ایک کمیٹی بنا دی جائے جو ہندو بھائیوں سے بات کرے لیکن میری بات نہیں مانی گئی۔ جب روی روی شنکر صاحب زیادہ دلچسپی کے ساتھ سامنے آئے تو میں نے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ پہلی ملاقات لکھنو میں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ہوئی، بنگلور میں 8 تاریخ کو ہوئی اور اب ایودھیا میں کئی سادھو سنتوں کے ساتھ ملاقات ہوگی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہر میٹنگ میں کئی علماء اور کئی سادھوؤں نے شرکت کی اور آگے بھی اکیلے میں کوئی میٹنگ نہیں ہونے والی اس لیے ایسا نہیں ہے کہ کوئی بات چھپائی جا رہی ہو۔‘‘
Published: 12 Feb 2018, 6:31 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 12 Feb 2018, 6:31 PM IST