وطن عزیز کی جنگ آزادی کے روح رواں ابوالکلام محی الدین احمد یعنی مولانا آزاد کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ کثیر الجہت اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے، جو انڈین نیشنل کانگریس کے سب سے کم عمر اور چھٹے مسلم صدر تھے۔ اگر وہ چاہتے تو مصلحت کی چادر اوڑھ کر اپنے شب و روز عیش وعشرت کے ساتھ گزار دیتے، لیکن انہوں نے اپنی زندگی برطانوی نو آبادیاتی نظام کی غلامی سے نجات کے لیے وقف کر دی، جس کی انہیں بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑی۔
Published: undefined
برطانوی استعمارسے ٹکرانے کی پاداش میں مسلسل قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ ان کا ایک پیر ریل میں اور دوسرا جیل میں رہتا تھا۔ مولانا آزاد کے تخمینہ کے مطابق ان کی عمر عزیز کے تقریباً 10 سال 7 مہینے نذر زندان ہوئے، یعنی ان کی زندگی کا ہر ساتواں دن قید فرنگ میں گزرا۔
مولانا آزاد غبار خاطر کے ایک خط مورخہ 11 اگست 1942ء میں اپنی سزاﺅں کی بابت لکھتے ہیں کہ:
’’قید و بند کی زندگی کا یہ چھٹا تجربہ ہے۔ پہلا تجربہ 1916ء میں پیش آیا تھا، جب مسلسل 4 برس تک قید و بند میں رہا، پھر 1921ء، 1931ء، 1932ء اور 1940ء میں یکے بعد دیگرے یہی منزل پیش آتی رہی اور اب پھر اسی منزل پر قافلہ باد پیمائے عمر گزر رہا ہے... البتہ اس کا افسوس ضرور ہے کہ وہ ساتوں حصّے کی مناسبت کی بات مختل ہو گئی اور سبت کی تعطیل کا معاملہ ہاتھ سے نکل گیا۔‘‘
Published: undefined
مولانا آزاد نے اندازے کے مطابق جو اپنی سزاؤں کی اجمالی مدت لکھی ہے، وہ دستاویز اور اخبارات کی ورق گردانی کے بعد کم و بیش درست بیٹھتی ہے۔ ان کی گرفتاریوں کی مدت سلسلہ وار اس طرح ہے:
ان کی پہلی گرفتاری: حکومت بنگال نے ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کی دفعہ 3 کے تحت کی، جس کا آغاز 7 اپریل 1916 میں رانچی سے ہوا اور اختتام یکم جنوری 1920ء کو ہوا۔ یعنی تقریباً 3 سال 9 ماہ عقوبت خانے میں گزارے، لیکن رہا ہوتے ہی پھر سابقہ روش پر چلنے لگے۔
دوسری گرفتاری: 10 دسمبر 1921ء کو ہوئی۔ 2 سال، 27 روز جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے۔
تیسری گرفتاری: نمک ستیہ گرہ 21 اگست 1930ء میرٹھ محبوس خانہ میں غالباً 6 ماہ اسیری میں کاٹے۔
چوتھی گرفتاری: 12 مارچ 1932ء رہائی 2 ماہ قید فرنگ میں گزارے
پانچویں گرفتاری: 3 جنوری 1940ء سزا غالباً 11 ماہ
چھٹی گرفتاری: 9 اگست 1942ء احمد نگر قلعہ سزا کی مدت 2 سال 10 مہینے 6 روز
Published: undefined
دوران اسیری احمد نگر جیل مولانا کی زندگی میں ایک بہت بڑا سانحہ گزرا کہ ان کی اہلیہ داغ مفارقت دے گئیں۔ مولانا کو تاعمر جن کی یاد پژمردہ کرتی رہی۔ حکومت اہلکار ان کو عارضی ضمانت دینے پر آمادہ تھی مگر ان کی باوقار اور خوددار طبیعت نے یہ گوارا نہیں کیا۔
Published: undefined
عموماً لوگ جیل خانہ میں قید تنہائی کو ایک اذیت سزا تصور کرتے ہیں مگر مولانا اس تنہائی کو تحفہ سمجھتے تھے۔ روش عام سے ہٹ کر چلنا ساری زندگی ان کا معمول رہا۔ خود ان کے الفاظ میں ’’ساری دنیا سے الٹی چال میرے حصہ میں آئی۔‘‘
Published: undefined
ہمارے لیے یہ بات باعث شرم ہے اور احسان فراموشی ہے کہ این سی آر ٹی نے آزادی کے ’امرت مہوتسو‘ کے موقع پر گزشتہ سال ان کا سبق نصابی کتابوں سے حذف کر دیا۔ اس مذموم عمل کی جتنی مذمت کی جائے اتنی کم ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر سوشل میڈیا