قومی خبریں

مولانا ارشد مدنی نے سیاسی پارٹیوں پر لگایا ہندو-مسلم منافرت پھیلانے کا الزام، مذہبی رہنماؤں سے آگے آنے کی اپیل

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی اور ہریدوار میں نرنجنی اکھاڑے کے آچاریہ سوامی آنند گری کے درمیان ہوئی ملاقات میں ہندو-مسلم یکجہتی پر زور ڈالنے کی بات کی گئی۔

مولانا ارشد مدنی
مولانا ارشد مدنی تصویر یو این آئی

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی اور ہریدوار میں نرنجنی اکھاڑے کے آچاریہ سوامی آنند گری کے درمیان ہوئی ملاقات ان دنوں موضوعِ بحث ہے۔ یہ ملاقات 7 جنوری کو ہوئی تھی اور دونوں مذہبی رہنماؤں نے کچھ اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ اس ملاقات کے بعد مولانا ارشد مدنی نے کچھ میڈیا اہلکاروں سے بات کی اور بتایا کہ انھوں نے آچاریہ سوامی آنندی گری سے کیا کچھ باتیں کیں۔

Published: undefined

میڈیا ذرائع کے مطابق مولانا ارشد مدنی نے یکساں سول کوڈ، ہندو-مسلم یکجہتی اور موب لنچنگ کے بڑھتے واقعات پر سوامی آنند گری سے تبادلہ خیال کیا۔ مولانا ارشد مدنی نے میڈیا کو بتایا کہ ’’میں ایک مدت سے کیلاش آنند جی مہاراج سے ملاقات کی خواہش رکھتا تھا، لیکن ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ اب جا کر ان سے میری ملاقات ہوئی اور انھوں نے مجھے جو احترام دیا، میں اس کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ’’میں نے مہاراج سے بتایا کہ میں نے یوروپ کے کئی ممالک کا دورہ کیا ہے، اور دیگر ممالک بھی گیا ہوں، سبھی جگہ ہر ممالک کے لوگ ملے جو اپنی شکل و صورت، پہناوے اور زبان سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ سب شہری علاقوں میں ہی رہتے ہیں کیونکہ دیہی علاقوں میں معاشی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ لیکن ہندوستان میں آپ کسی بھی شہر یا گاؤں چلے جائیں، وہاں ہندو اور مسلمان سبھی ایک ساتھ مل جائیں گے، جو شکل و صورت، زبان اور پہناوے میں ایک ہی طرح کے ہوں گے۔‘‘

Published: undefined

مولانا ارشد مدنی مزید کہتے ہیں کہ ’’ہندوستان میں سبھی مذاہب کے لوگ مل جل کر بہت پیار و محبت سے رہتے نظر آ جائیں گے۔ ان کا خاندان کتنی صدیوں سے یہاں بسا ہوا ہے، یہ انھیں خود بھی نہیں معلوم۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا خون ایک ہے، برادریاں ایک ہیں، شکل و صورت ایک ہے۔ لیکن حکومت ہے جس نے لوگوں میں تفریق پیدا کر دی ہے۔ کوئی بھی شخص، چاہے جس بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، وہ لڑائی جھگڑے کی تائید نہیں کرے گا۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ’’میں نے موہن بھاگوت سے بھی ملاقات کے دوران یہ بات کہی تھی اور مہاراج سے بھی یہی بات کہی ہے۔ فرقہ پرست پارٹیاں آگ لگانے کا کام کر رہی ہیں، لیکن ہم مذہب کے ماننے والے ہیں اور ہماری طرف سے آواز اٹھنی چاہیے، ہم اگر پیار و محبت پھیلانے کے لیے آواز اٹھائیں گے تو یہ بے اثر نہیں ہوگی۔ کچھ سیاسی پارٹیاں ہیں جو ہندو-مسلم منافرت پھیلانے کا کام کر رہی ہیں، ان کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔‘‘

Published: undefined

جب مولانا ارشد مدنی نے سوامی آنند گری مہاراج سے ملاقات کی تو انھوں نے مولانا کو بھگوا شال پہنائی اور اتراکھنڈ کی ٹوپی بھی پہنائی۔ اس سلسلے میں جب ایک نامہ نگار نے ان سے سوال کیا اور بھگوا شال پر رد عمل جاننا چاہا تو انھوں نے کہا کہ ’’بھگوا رنگ میں کوئی مسئلہ نہیں، اس کو میں دل کی گہرائیوں سے قدر کی نظر سے دیکھتا ہوں۔‘‘ پھر انھوں نے جبراً مذہب تبدیلی کے بارے میں کہا کہ ’’زبردستی تو مذہب کی تبدیلی ہو ہی نہیں سکتی۔ مذہب نام ہے دل سے اصول اور ایمان کو اختیار کرنے کا۔ اگر کوئی زور دے کر کسی کا مذہب بدلتا ہے، تو اس پر اعتبار کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اس کا مذہب تبدیل ہی نہیں ہوگا۔‘‘

Published: undefined

یکساں سول کوڈ کے تعلق سے ایک سوال کے جواب میں مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ’’سیکولرزم کا مطلب ہے کہ ہر آدمی کو اپنے پسند کا مذہب اختیار کرنے کا حق ملے۔ اور ہندوستان میں دستور نے سبھی کو یہ اختیار دیا ہے۔ ہندوستان میں حکومت کا کوئی اپنا مذہب نہیں ہے۔ ہم اپنے اس دستور کو مانتے ہیں، ہر آدمی کو اپنی پسند کے مطابق اپنے مذہب کو اختیار کرنے کا حق ہے۔ حکومت ایک ہی طرح کا اصول ماننے کے لیے سبھی مذاہب کے لوگوں کو مجبور نہیں کر سکتی۔ یکساں سول کوڈ کا مطلب ہے ایک قانون کو نافذ کرنا، یہ کسی بھی طرح مناسب نہیں۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined