’انڈیا جسٹس رپورٹ 2022‘ میں اس حیرت انگیز بات کا انکشاف ہوا ہے کہ ملک کی کئی ہائی کورٹس میں ایک بھی خاتون جج موجود نہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہار، تریپورہ، منی پور، میگھالیہ اور اتراکھنڈ ایسی ریاستیں ہیں جہاں کے ہائی کورٹ میں ایک بھی خاتون جج نہیں ہے۔ حالانکہ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے مقابلے میں ضلع عدالت کی سطح پر زیادہ خاتون جج کی موجودگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
Published: undefined
انڈیا جسٹس رپورٹ 2022 کو ٹاٹا ٹرسٹس کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ ’دکش‘، کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیٹیو، کامن کاؤز، سنٹر فار سوشل جسٹس، لاء سنٹر فار لیگل پالیسی اور ٹی آئی ایس ایس-پریاس کے تعاون سے تیار کی گئی ہے۔ اس میں ملک کی سبھی ریاستوں کی عدالتی صلاحیت کا جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔
Published: undefined
اس رپورٹ میں دو پیمانوں کو خصوصی طور سے بنیاد بنایا گیا ہے۔ مثلاً سماجی تنوع اور اعلیٰ و ماتحت عدلیہ میں خواتین کی نمائندگی۔ اس کی بنیاد پر اس رپورٹ میں ہندوستان کی ریاستوں کی انصاف فراہم کرنے کے نظام کی صلاحیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جہاں ملک بھر کے ہائی کورٹس میں خواتین جج کی نمائندگی پہلے کے مقابلے تھوڑی بڑھی ہے، وہیں کچھ ریاستوں کے ہائی کورٹس میں خواتین ججوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔
Published: undefined
رپورٹ میں جانکاری دی گئی ہے کہ 2020 اور 2022 کے درمیان ملک کے ہائی کورٹس میں خواتین کی نمائندگی میں 2 فیصد سے تھوڑا کم اضافہ دیکھا گیا ہے، جبکہ تلنگانہ میں نمائندگی 7.1 سے 27.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ حالانکہ کچھ ریاستوں میں ہائی کورٹس میں خاتون ججوں کی نمائندگی گر گئی ہے۔ مثلاً آندھرا پردیش میں نمائندگی کا فیصد 19 سے 6.7 ہو گیا ہے۔ اسی طرح چھتیس گڑھ میں بھی 14.3 فیصد خاتون ججوں کی نمائندگی تھی جو اب گھٹ کر 7.1 فیصد ہو گئی ہے۔
Published: undefined
سپریم کورٹ سطح پر خواتین کی نمائندگی بھی بہت اچھی نہیں ہے۔ بھلے ہی ہندوستان کے سپریم کورٹ میں 3 خاتون جج ہیں، لیکن عدالت عظمیٰ کے قیام کے بعد سے سپریم کورٹ میں صرف 11 خاتون جج ہوئیں۔ اتنا ہی نہیں، ہندوستان میں اب تک کوئی خاتون چیف جسٹس نہیں بنی۔ ہائی کورٹس میں بھی 680 ججوں میں سے صرف 83 خواتین ہیں۔ ماہرین قانون کا ماننا ہے کہ ہائی کورٹس میں خواتین کی یہ خراب نمائندگی سماج میں پدرانہ سوچ، خواتین کے ریزرویشن کا نہ ہونا، مقدمہ بازی میں خواتین کی کمی اور عدالتی بنیادی ڈھانچے میں کمی کی وجہ سے ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined