قومی خبریں

بے حیائی کی حد— ’’کوئی استعفیٰ مانگتا ہے تو مانگتا رہے‘‘: کھٹّر

بے حیائی کی حد— ’’کوئی استعفیٰ مانگتا ہے تو مانگتا رہے‘‘: کھٹّر

Getty Images
Getty Images 

نئی دہلی: گزشتہ ہفتہ سی بی آئی عدالت کے ذریعہ گرمیت رام رحیم کو قصوروار قرار دیے جانے کے بعد پھیلے تشدد میں درجنوں افراد کی موت اور سینکڑوں افراد کے زخمی ہونے کے باوجود ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹّر کا خود کو ’معصوم‘ قرار دینا حیران کن ہے۔ انھوں نے آج واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ ’’کوئی استعفیٰ مانگتا ہے تو مانگتا رہے۔ ہریانہ میں ہر طرف امن کا ماحول ہے۔‘‘ دراصل آج کھٹّر بی جے پی صدر امت شاہ سے ملاقات کرنے پہنچے تھے جہاں انھوں نے ڈیرا سچا سودا معاملے کی مکمل رپورٹ پیش کی۔ اس کے بعد انھوں نے نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران کہا کہ ’’جو عدالت کا حکم تھا ہم نے اسی پر عمل کیا۔ پوری احتیاط کے ساتھ حالات کو سنبھالا۔ کوئی کچھ بھی کہے ہم اپنے کام سے مطمئن ہیں۔‘‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ کھٹّر کے مطابق انھوں نے عدالت کے احکامات کا پاس رکھا اور احتیاط کے ساتھ حالات کو سنبھالا۔ لیکن عدالت نے تو انھیں پھٹکارا ہے اور شاید وہ یہ بھول گئے ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں کہ گرمیت رام رحیم کے خلاف فیصلہ سنائے جانے سے قبل ہریانہ اور پنجاب ہائی کورٹ نے انھیں ڈانٹا تھا اور کہا تھا کہ سیاسی مفاد کے لیے حکومت نے پنچکولہ کو جلنے کے لیے چھوڑ دیا۔ عدالت نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ حالات کے سامنے حکومت نے سرینڈر کر دیا۔

یہ کتنی حیرانی کی بات ہے کہ پوری دنیا ہریانہ میں معصوم لوگوں کی موت، کروڑوں کی ملکیت کو پہنچے نقصان اور مقامی لوگوں کی پریشانیوں پر آنسو بہا رہی ہے اور کھٹّر خود سے اپنی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں۔ وہ لوگوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ دو دنوں کے تشدد کے بعد کس کامیابی کے ساتھ انھوں نے حالات پر قابو پا لیا، لیکن انھیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ دو دن تک جو تشدد ہوا وہ اُن کی لاپروائی اور بدانتظامی کا ہی نتیجہ تھا۔ اگر وہ شروع میں خاموش تماشائی نہیں بنے رہتے تو لوگوں کو اپنی جان نہیں گنوانی پڑتی۔ وہ تو عدالت کی پھٹکار تھی جس نے انھیں ہوش میں لایا اور حالات سنبھل سکے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined