نئی دہلی: دہلی کی شراب سے متعلق پالیسی (ایکسائز پالیسی) کو لے کر عام آدمی پارٹی اور مرکز کے درمیان رسہ کشی کا کھیل جاری ہے۔ دریں اثنا، نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے نئی ایکسائز پالیسی کے حوالہ سے سابق ایل جی ہدف تنقید بنایا۔ انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے کہ کہ کس طرح دہلی کی نئی ایکسائز پالیسی 2021-22 نے صحیح طریقے سے لاگو ہونے سے روک کر کچھ لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔
Published: undefined
منیش سسودیا نے کہا ’’میں نے اس کی شکایت سی بی آئی سے کی ہے۔ مئی 2021 میں منظور ہونے والی نئی ایکسائز پالیسی میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہر علاقے میں شراب کی یکساں دکانیں ہوں گی۔ پہلے ایک جگہ پر 20 دکانیں تک تھیں، جبکہ کچھ جگہوں پر ایک بھی نہیں تھی۔‘‘
Published: undefined
منیش سسودیا نے کہا کہ نئی ایکسائز پالیسی اس وقت کے ایل جی صاحب کے پاس گئی، انہوں نے بہت غور سے پڑھا، اس پالیسی میں صاف لکھا تھا کہ 849 سے زیادہ دکانیں نہیں ہو سکتیں۔ دہلی کے ہر علاقے میں دکانیں یکساں ہوں گی۔ غیر مجاز کالونیوں میں بھی دکانیں ہوں گی۔ ایل جی صاحب نے اسے مکمل پڑھنے کے بعد منظور کر لیا۔ ایل جی صاحب نے پالیسی کی منظوری دی، کوئی اعتراض نہیں ہوا۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد جب دکانیں کھولنے کی فائل ایل جی صاحب کے پاس آفس پہنچی تو انہوں نے اپنا موقف بدل لیا۔ نومبر کے پہلے ہفتے میں دکانیں کھولنے کی تجویز ایل جی صاحب تک پہنچ گئی۔ نومبر میں انہوں نے ایک نئی شرط رکھی کہ غیر مجاز کالونی میں دکان کھولنے کے لیے ڈی ڈی اے، ایم سی ڈی کی منظوری لینی ہوگی۔
Published: undefined
منیش سسودیا نے مزید کہا کہ پہلے ایسا کوئی اصول نہیں تھا اور صرف ایل جی ہاؤس سے منظوری کی ضرورت ہوتی تھی۔ جس کی وجہ سے لائسنس لینے والوں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایل جی صاحب کے فیصلہ بدلنے سے بہتوں کو تکلیف ہوئی۔ اس کے بعد لائسنس ہولڈرز اپنی دکان نہ کھلنے کی وجہ سے عدالت پہنچے جبکہ کئی دکانیں نہ کھلنے کی وجہ سے کچھ دکانداروں کو کافی فائدہ ہوا۔
سسودیا نے کہا ’’ایل جی کا موقف تبدیل کرنے سے حکومت کو ہزاروں کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ فیصلہ 48 گھنٹے پہلے تبدیل کیا گیا تھا۔ میرے خیال میں ایل جی کا موقف تبدیل کرنے کی وجہ سے تقریباً 300 سے 350 دکانیں نہیں کھل سکیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز