کولکاتا: مغربی اسمبلی نے آج ’ودھان پریشد‘ (قانون ساز کونسل) کی تشکیل کا بل پاس کردیاہے۔ترنمول کانگریس نے انتخابی منشور میں ودھان پریشد کی تشکیل کا وعدہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے ذریعہ سینئر اور تجربہ کار افراد جو اسمبلی انتخابات نہیں لڑ سکتے ہیں، انہیں یہاں بھیج کر ان کی خدمات حاصل کرے گی۔تاہم بی جے پی نے مالی بحران کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ودھان پریشد کی تشکیل کے حالات نہیں ہے۔
Published: undefined
بی جے پی نے کہا کہ مالی بحران کے باوجود قانون ساز اسمبلی کی تشکیل کا کیا جواز ہے۔بی جے پی نے کہا کہ وہ اس کی سخت مخالفت کرتی رہے گی۔جبکہ ترنمول کانگریس نے کہا کہ اترپردیش اور بہار ودھان پریشد ہے توبنگال میں کیوں نہیں ہے ۔ترنمول کانگریس کے سکریٹری جنرل و پارلیمانی امور پارتھو چٹرجی نے کہا کہ جو پارٹی خود ایک زمانے سے ودھان پریشد کی تشکیل کی حمایت کرتی رہی ہے، آج اس کی مخالفت کررہی ہے۔ایسا اس لیے کیوں کہ آج وہ اپوزیشن کے بنچ پر ہے۔انہوں نے کہا کہ ودھان پریشد کی تشکیل بنگال کے مفاد میں ہے۔
Published: undefined
بی جے پی نے اس بل کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر بل کو واپس نہیں لیا جاتا ہے تو اس پر ووٹنگ کرائی جائے۔اس کے بعد اسپیکرنے ووٹنگ کرانے کا اعلان کیا۔ ووٹنگ میں اس بل کے حق میں 198ووٹ پڑے جب کہ مخالفت میں 69ووٹ پڑے۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ اسمبلی میں کل 265ممبران موجود تھے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ 2011 میں ممتا بنرجی کی حکومت کی تشکیل کے بعدایک ایڈہاک کمیٹی کی بنائی گئی تھی اس کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر ہی آج بل پیش کیا گیا ہے۔ اس وقت یہ بحث آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔ تب ریاستی حکومت کی دلیل یہ تھی کہ حکومت قرضوں کے بہت بڑے بوجھ کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے۔ لہذا، اس وقت قانون ساز کونسل کی تشکیل ممکن نہیں ہے۔ آج پارتھو چٹرجی نے کہا کہ اسمبلی میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی نمائندگی کی ضرورت ہے۔ لہذا ، حکومت نے قانون ساز کونسل کی تشکیل کے لئے پہل کی ہے۔
Published: undefined
اب اس بل کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے منظوری ملنی ضروری ہے۔قانون کے مطابق اسمبلی کی ایک تہائی سیٹ کونسل میں ہوتی ہے۔اس لحاظ سے بنگال میں 98سیٹ ہوگی ۔خیال رہے کہ بنگال میں 1952میں قانون ساز کونسل کی تشکیل ہوئی تھی مگر 21مارچ 1969کو قانون ساز کونسل کو تحلیل کردیا گیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز