ممتا بنرجی آج کل ملک کی کئی ریاستوں میں دورے کر رہی ہیں اور مغربی بنگال جہاں ان کی حکومت ہے وہاں پر وہ بی جے پی کے لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کر رہی ہیں اور باقی ملک میں کانگریس کے رہنماؤں کا شکار کر رہیں ہیں۔ ان کے ان اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی نطریں 2024 کے لوک سبھا انتخابات اور مرکز کی کرسی پر ہے۔ ان کو ایسا لگنے لگا ہے یا ان کو لگایا جانے لگا ہے کہ ان کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ کانگریس ہے اس لئے اب انہوں نے کانگریس کے خلاف محاذ کھول دیا ہے اور وہ شائد بھول گئیں ہیں کہ مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات سے قبل وہ اتنی گھبرائی ہوئی تھیں کہ انہوں نے سونیا گاندھی سمیت حزب اختلاف کے کئی رہنماؤں کو بی جے پی کے خلاف متحد ہونے کے لئے اپیل کی تھی۔
Published: undefined
مہاراشٹر کے دورے کے دوران انہوں نے شرد پوار سے ملاقات کے بعد صحافیوں کے یو پی اے کے تعلق سے کیے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ کہاں ہے یو پی اے۔ اس جواب سے انہوں نے بی جے پی کے خلاف لڑائی کے لئے موجود ایک پلیٹ فارم پر ہی سوال نہیں کھڑے کئے بلکہ انہوں نے سیدھے طور پر یو پی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی پر سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ ان کے اس جواب نے ان کی بی جے پی کے خلاف لڑائی پر بھی سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔
Published: undefined
ممتا بنرجی اپنے بیانات اور دوروں کے ذریعہ اس حقیقت پر پردہ ڈالنا چاہتی ہیں کہ ملک میں اگر بی جے پی کے خلاف کوئی آواز اٹھا رہا ہے تو وہ کانگریس ہی ہے اور خود ممتا بنرجی قومی مسائل پر خاموش رہتی ہیں۔ کانگریس ہی ہے جس نے زور شور سے رافیل لڑاکو جہاز کی خریداری میں مبینہ بدعنوانی کا مدا اٹھایا، کانگریس نے ہی چین کا مدا اٹھایا، مہنگائی کا مدا اٹھایا، کورونا سے ہوئی اموات کا مدا اٹھایا، حکومت کے ذریعہ کسانون کی زمین لینے کا مدا اٹھایا، تینوں زرعی قوانین کا مدا اٹھایا اور اتر پردیش میں ہونے والی اموات اور دیگر مدوں پر کانگریس ہی سرگرم نظر آئی۔ اس کے باوجود ممتا بنرجی کا یہ کہنا کہ جو میدان میں لڑائی لڑے گا وہی اپوزیشن تسلیم کیا جائے گا۔ ان کی نظر میں مغربی بنگال میں حکومت کے بل بوتے پر بی جے پی کے رہنماؤں کو پارٹی میں شامل کرانے اور دیگر ریاستوں میں کانگریس کے رہنماؤں کو اپنی پارٹی میں شامل کرانا ہی میدان میں لڑائی ہے تو اس کو ان کی سیاسی ناسمجھی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
ممتا کو یہ بھی غلط فہمی ہے کہ انہوں نے نریندر مودی اور امت شاہ کو ہرایا ہے ایسا کئی رہنما کر چکے ہیں۔ دہلی میں کیجریوال دو مرتبہ کر چکے ہیں، کیرالہ میں بایاں محاذ کر چکا ہے، اڈیشہ میں نوین پٹنائک کر چکے ہیں اور تمل ناڈو میں اسٹالن کر چکے ہیں۔ اگر ایک ریاست جیتنے سے کوئی وزیر اعظم کے خواب دیکھنے شروع کر د ے اور وہ خود کے بارے میں یہ دعوی کرنے لگے کہ وہ ہی میدان میں لڑ رہا ہے تو اس کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے کئی مرتبہ ملک میں ایسے وزیر اعظم بنے ہیں جن کو انتخابات میں سیٹیں بہت کم حاصل ہوئی ہیں جس میں دیوے گوڑا، اندر کمار گجرال، وی پی سنگھ وغیرہ لیکن انہوں نے پہلے سے کوئی کوشش نہیں کی تھی، بلکہ اس وقت کے حالات کے نتیجوں اور آپسی اختلافات کی وجہ سے ان کو سب نے قبول کر لیا تھا۔ ممتا بنرجی نے پہلے سے اپنے دعووں کے لئے ماحول بنانے کی کوشش کی ہے اس سے انہوں نے اپنے پیر میں خود کلہاڑی مار لی ہے۔
Published: undefined
ممتا بنرجی نے جو سشمتا دیب، کیرتی آزاد، تنور اور میگھالیہ سے کانگریس کے ارکان اسمبلی کو پارٹی میں شامل کر کے خود کو مضبوط نہیں کیا ہے بلکہ بی جے پی کے خلاف حزب اختلاف کی لڑائی کو کمزور کیا ہے۔ ممتا بنرجی ابھی تک تو منموہن سنگھ کی یو پی اے حکومت میں اتحادی اور واجپئی کی ریل پر سوال ہو کر بہت آگے نکل آئی ہیں لیکن اب ان کا سامنا نوجوان راہل، پرینکا اور بر سر اقتدار مودی سے ہے، آنے والے دن ان کے لئے مشکل بھرے ہوں گے کیونکہ ان کو اب کئی سوالوں کے جواب دینے ہوں گے۔ اگر وہ حقیقت میں بی جے پی کے خلاف لڑائی لڑنا چاہتی ہیں تو ان کو دوست اور دشمن میں تمیز کرنی ہوگی کیونکہ ان کے اقدام کہیں نہ کہیں بی جے پی کے ایجنڈہ ’کانگریس مکت ہندوستان‘ کو تقویت دے رہے ہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی سوال کرنے لگے ہیں کہ کیا وہ بی جے پی کے لئے کام کر رہی ہیں؟ ممتا کا مقصد کچھ بھی ہو لیکن وہ اب پھنس گئی ہیں اور اب ان کو کئی سوالوں کے جواب دینے پڑیں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز