ملیشیا میں ایک بہت بڑا الٹ پھیر آج اس وقت دیکھنے کو ملا جب 92 سالہ مآثر محمد نے پارلیمانی انتخابات میں وزیر اعظم نجیب رزاق کو شکست دے کر انھیں اس عہدہ سے بے دخل کر دیا۔ مآثر محمد کو یہ کامیابی ’جی ایس ٹی‘ کی وجہ سے ملی ہے جو نجیب رزاق نے یکم اپریل 2015 میں نافذ کی تھی۔ لوگوں میں اس جی ایس ٹی کو لے کر اتنا غصہ تھا کہ انھوں نے 222 پارلیمانی سیٹوں میں سے 113سیٹ مآثر محمد کی جھولی میں ڈال دیں۔ یہ نتیجہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ ملیشیا سے قبل کناڈا میں بھی ایسا ہو چکا ہے جب جی ایس ٹی کی وجہ سے ہی برسراقتدار پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ہندوستان میں جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد عوام میں جس طرح کی ناراضگی دیکھی جا رہی ہے اور چھوٹی و درمیانی صنعتوں کو جتنا نقصان پہنچا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ گزشتہ سال جولائی میں ہندوستان میں نافذ ہوئے اس جی ایس ٹی سے تاجروں کو بے انتہا پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ورلڈ بینک بھی ہندوستان میں نافذ جی ایس ٹی کو دنیا کا سب سے پیچیدہ نظام قرار دیتے ہوئے اس پر کئی سوال اٹھا چکا ہے۔ ورلڈ بینک نے اس جی ایس ٹی کو دنیا کا دوسرا سب سے مہنگا ٹیکس نظام بھی بتایا تھا۔
ہندوستان سے پہلے ملیشیا میں بھی ٹھیک ایسا ہی ٹیکس نظام 2015 میں نافذ کیا گیا تھا جس سے وہاں کے تاجروں کے ساتھ عام لوگوں کو بھی کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے لوگوں میں حکومت کے خلاف زبردست ناراضگی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملیشیا میں ہوئے عام انتخابات میں وزیر اعظم نجیب رزاق کی پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اپوزیشن کے تجربہ کار لیڈر مآثر محمد کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔ نجیب رزاق نے انتخابات سے قبل ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف بھی کیا تھا کہ جی ایس ٹی نافذ کرنا ان کے لیے مشکل فیصلہ تھا، لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ ملک کے مفاد میں ضروری تھا۔ لیکن ملیشیا کے نومنتخب وزیر اعظم مآثر محمد نے انتخابی تشہیر کے دوران عوام سے واضح لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ ان کی حکومت آنے کے بعد جی ایس ٹی ہٹا دیا جائے گا۔ ان کے اس بیان نے کرشمہ دکھایا اور نجیب رزاق کو منھ کی کھانی پڑی۔
Published: undefined
ملیشیا جیسا ہی معاملہ 1993 میں کناڈا میں بھی دیکھنے کو ملا تھا۔ اس وقت کناڈا کے وزیر اعظم اور کنزرویٹیو پارٹی کے لیڈر کم کیمپبل کو قومی انتخاب میں زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ ان کی حکومت نے جی ایس ٹی کو نافذ کرنے کے بعد اپنی مقبولیت گنوا دی تھی۔ یہی حال آسٹریلیا میں بھی جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد دیکھنے کو ملا تھا۔ آسٹریلیا میں جان ہاورڈ کی حکومت نے جی ایس ٹی نافذ کرنے کے فوراً بعد 1998 میں ہوئے انتخابات میں بڑی مشکل سے واپسی کی تھی۔ سنگاپور نے بھی 1994 میں جب جی ایس ٹی نافذ کیا تھا تو وہاں مہنگائی کافی بڑھ گئی تھی۔
دوسرے ممالک میں جی ایس ٹی نفاذ کے بعد ہوئے انتخابات میں حکمراں طبقہ کو جس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اقتدار میں تبدیلی دیکھنے کو ملی اس سے بی جے پی کا پریشان ہونا لازمی ہے۔ حالانکہ ملیشیا کے انتخابی نتائج کا اثر ہندوستان میں 2019 میں ہونے والے عام انتخابات پر نہ پڑے اس کی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی ٹیم پوری کوشش کرے گی لیکن کانگریس صدر راہل گاندھی نے بھی این ڈی اے کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ جی ایس ٹی کے تعلق سے بھی انھوں نے کہہ دیا ہے کہ 2019 میں اگر کانگریس فتحیاب ہوتی ہے تو اس میں ضروری تبدیلیاں کی جائیں گی۔ اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف جس طرح عوام میں ناراضگی دیکھنے کو مل رہی ہے اور اپوزیشن پارٹیاں متحد ہو رہی ہیں، اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ملیشیا میں جو حالت نجیب رزاق کی ہوئی ہے اگر ویسا ہی نریندر مودی کے ساتھ ہو تو اس میں کسی کو حیرانی نہیں ہوگی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز