ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی مہاوکاس اگھاڑی حکومت کو گزشتہ دو سال سے مرکزی ایجنسیوں کی مدد سے غیر مستحکم کرنے کی لگاتار کوششیں چل رہی ہیں۔ اب جیسے کو تیسا والے انداز میں بی جے پی کو جواب دینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ ٹھاکرے نے بجٹ اجلاس کے آخری دن صاف پیغام دے دیا کہ اگر اقتدار پانے کی لالچ میں بی جے پی انھیں جیل بھیجنا چاہتی ہے تو انھیں جیل میں ڈال دیا جائے لیکن وہ کرشن کی شکل میں جنم لے کر کنس (بی جے پی) کا خاتمہ ضرور کریں گے۔
Published: undefined
ٹھاکرے ایکشن موڈ میں ہیں، حالانکہ وہ اپنے رویہ سے پرسکون اور سلجھے ہوئے ہیں اور کم ہی بولتے ہیں۔ بی جے پی کے ساتھ ان کی پارٹی شیوشینا کا 25 سال پرانا رشتہ رہا ہے۔ لیکن بی جے پی نے جب دغابازی کی تو شیوسینا نے کانگریس اور این سی پی کے ساتھ مل کر اگھاڑی حکومت بنائی۔ اس سے بی جے پی قیادت خفا ہو گئی۔ وہ ٹھاکرے حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے مرکزی ایجنسیوں کی مدد لے رہی ہے۔ ان ایجنسیوں کی طاقت پر ٹھاکرے کابینہ کے دو وزراء انل دیشمکھ اور نواب ملک کو الگ الگ معاملوں میں جیل بھجوا دیا گیا ہے۔ اس کے بعد ٹھاکرے کے ایک رشتہ دار کو بھی ای ڈی کی طرف سے پریشان کیا جا رہا ہے۔ ویسے، مانا یہی جا رہا ہے کہ ای ڈی، انکم ٹیکس اور سی بی آئی تک یہ فائلیں فڑنویس، کریٹ سومیا، پروین دریکر، موہت کمبوج اور نارائن رانے نے پہنچائی ہے اور ان کی بنیاد پر ہی مرکزی ایجنسیاں حرکت میں ہیں۔
Published: undefined
چونکہ واضح ہے کہ پریشانی کے عالم میں بی جے پی قیادت اس طرح کے قدم اٹھا رہی ہے، اس لیے اگھاڑی حکومت میں شامل پارٹیوں نے بھی اب مجبوری میں کچھ قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ بھی تب جب مرکزی حکومت چنندہ کارروائی ہی کرنے کی خواہاں ہے۔ دراصل شیوسینا لیڈر سنجے راؤت نے کچھ دستاویز وزیر اعظم نریندر مودی کو بھیجے۔ انھیں امید تھی کہ ایمانداری کا دعویٰ کرنے والے مودی اپنی پارٹی کے لیڈروں کے خلاف بھی ایکشن لیں گے۔ لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔ راؤت پہلے ہی فڑنویس حکومت میں 25 ہزار کروڑ روپے کے گھوٹالے کا الزام لگا چکے ہیں۔
Published: undefined
ٹھاکرے حکومت نے جو کارروائی شروع کی ہے، ان میں سے دو معاملوں میں فڑنویس ابھی پھنستے نظر آ رہے ہیں۔ ایک تو ان کا دیرینہ منصوبہ ’جَل یُکت شیوار‘ ہے۔ اس منصوبہ کے تحت پورے کیے گئے 71 فیصد کاموں میں مالی اور انتظامی بے ضابطگیاں مل رہی ہیں۔ دوسرا معاملہ فون ٹیپنگ کا ہے۔ اس معاملے میں فڑنویس کے خلاف آفیشیل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیس درج ہے اور ممبئی پولیس کی سائبر یونٹ نے فڑنویس کے سرکاری بنگلے پر جا کر ان کا بیان درج کیا ہے۔ پولیس جانچ کر رہی ہے کہ آخر خفیہ محکمہ کا ڈاٹا باہر کیسے آیا؟ فون ٹیپنگ معاملے میں آئی پی ایس افسر رشمی شکلا کا بھی بیان درج کیا گیا ہے۔ ان پر غیر قانونی طریقے سے لیڈروں کے فون ٹیپ کرنے کا الزام ہے۔
Published: undefined
اُدھر سنجے راؤت نے کریٹ سومیا اور ان کے بیٹے نیل سومیا کے پی ایم سی بینک گھوٹالے کے ایک ملزم راکیش بادھوان سے رشتے کو ظاہر کیا ہے۔ بی جے پی لیڈر موہت کمبوج کو نواب ملک نے آرین خان کے اغوا اور تاوان معاملے کا ماسٹر مائنڈ بتایا تھا۔ موہت کے سانتاکروز واقع فلیٹوں میں غیر قانونی کاموں کو لے کر بی ایم سی نے نوٹس بھیجا ہے۔ دشا سالیان موت کے معاملے میں دیئے بیان کو لے کر مرکزی وزیر نارائن رانے اور ان کے بیٹے نتیش رانے سے مالونی پولیس نے 9 گھنٹے تک پوچھ تاچھ کی۔ دشا سالیان ٹی وی اور فلم اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی منیجر رہی تھیں اور انھوں نے خودکشی کر لی تھی۔ حالانکہ لاش کا پوسٹ مارٹم بھی کیا گیا تھا، پھر بھی کسی دلیل کے بغیر ہی رانے باپ-بیٹے نے عوامی طور پر کہا تھا کہ خودکشی سے پہلے دشا کے ساتھ عصمت دری کی گئی تھی۔ اس پر دشا کے والدین نے بھی اعتراض ظاہر کیا تھا۔
Published: undefined
ویسے بی جے پی کے پرانے الزامات ہی اب اس کے لیڈروں کو پریشان کر رہے ہیں۔ قانون ساز کونسل میں حزب مخالف کے لیڈر پروین دریکر پہلے مہاراشٹر نونرما سینا میں تھے۔ تب بی جے پی نے ان پر ممبئی میں بینک میں 200 کروڑ روپے کے گھوٹالے کا الزام عائد کیا تھا۔ بعد میں وہ بی جے پی میں آ گئے تو پارٹی کو وہ الزام یاد نہیں آ رہے۔ لیکن انھوں نے جو تفصیل درج کرائی ہے، اس سے ہی پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے پہلے مزدور رہنے کا غلط دعویٰ کیا ہے۔ ایم آر اے مارگ پولیس اسٹیشن میں درج معاملے کے مطابق دریکر نے ممبئی بینک میں فرضی مزدور بن کر انتخاب لڑا اور ڈائریکٹر اور چیئرمین عہدہ پر کئی سالوں تک رہے اور اس دوران کروڑوں روپے کے گھوٹالے ہوئے۔ پولیس اس کی جانچ کر رہی ہے۔
Published: undefined
اسی طرح کریٹ سومیا نے 2017 میں نارائن رانے کی مبینہ سات کمپنیوں کا کچا چٹھا ای ڈی کو سونپا تھا جس پر جانچ بھی شروع ہوئی تھی۔ لیکن 2019 میں ان کے بی جے پی میں شامل ہوتے ہی کریٹ اور ای ڈی دونوں ہی اس معاملے کو بھول گئے۔ کرٹ نے ہی ریاست کے سابق ریاستی وزیر داخلہ اور شمالی ہند کے لیڈر کرپاشنکر سنگھ کے خلاف عہدہ کا غلط استعمال کرتے ہوئے بدعنوانی کا الزام لگایا تھا۔ سنگھ پر 300 کروڑ روپے سے زیادہ کی ملکیت غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کرنے کا معاملہ بھی چلا۔ لیکن 2016 میں فڑنویس حکومت کے دوران انھیں سبھی الزامات سے بری کر دیا گیا۔ اس کے بعد سنگھ نے بی جے پی کا دامن تھام لیا۔ لیکن اگھاڑی حکومت اب اس کے ساتھ کئی اور معاملوں کی جانچ کرا رہی ہے۔
(نوجیون انڈیا ڈاٹ کام کے لیے نوین کمار کے تحریر کردہ مضمون کا اردو ترجمہ)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined