بی جے پی کو ایک جملے سے بہت زیادہ دلچسپی ہے اور وہ جملہ ہے ’گھرمیں گھس کر مارنے‘ کا۔ پاکستانی سرحد میں فوجی اسٹرائیک کے بعد تو گویا بی جے پی پر یہ لفظ دہراتے رہنے کا دورہ سا پڑ گیا ہے۔ انتخابی ریلیوں سے لے کر میڈیا تک پر بس یہی جملہ نظر آتا ہے اور آج بھی پردھان سیوک کی بہادری کا تذکرہ کرتے ہوئے اس جملے کے استعمال کے بغیر بات نہیں بنتی۔ یہ الگ بات ہے کہ سرجیکل اسٹرائیک خالص فوجی عمل تھا اور اس کا سہرا بھی فوج کے ہی سربندھنا چاہیے تھا، مگر بدقسمتی سے فوج کی اس جانبازی کو بھی ووٹوں کے حصول کا ذریعہ بنالیا گیا اور بی جے پی نے اس پر اپنا کاپی رائیٹ سمجھ لیا۔ مگر اسی بی جے پی کو کیا خبر تھی ایک نہیں کئی سرجیکل اسٹرائیک اس کے اپنے ان قلعوں پر بھی ہوجائے گی جنہیں برسہا برس سے ناقابل تسخیر تصور سمجھا جاتا رہا ہے اور یہ سرجیکل اسٹرائیک پیسہ، پاور اور افرادی قوت تک سے کمزور وہ پارٹیاں کریں گی جن کے لیے 2014 سے ہی وہ ’بھارت مکت‘ کا نعرہ دے چکی تھی۔
Published: undefined
پہلے بات ناگپور کی جہاں کے گریجویٹ قانون ساز کونسل کی سیٹ پر کانگریس کے ابھیجت ونجاری نے 15 ہزار سے زائد ووٹوں سے سرجیکل اسٹرائیک کی ہے۔ یہ وہی ایم ایل سی کی سیٹ ہے جہاں سے ریاست کے سابق وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس کے والد انتخاب جیتتے تھے اور مرکزی وزیر نتن گڈکری جہاں سے کئی بار جیت چکے ہیں۔ دیویندر فڈنویس کے والد گنگادھر فڈنویس یہاں سے پہلی بار1989میں جیتنے کے بعد مسلسل چار بار کامیاب ہوتے رہے۔ اس وقت سے روایتی طور پر یہ سیٹ آر ایس ایس کے ہی پاس رہی۔ اس سیٹ پرکانگریس کی کامیابی کی اہمیت اس لیے بھی مزید بڑھ جاتی ہے کہ بی جے پی کے امیدوار سندیپ جوشی نہ صرف فی الوقت ناگپور میں بی جے پی کے میئر ہیں بلکہ نتن گڈکری کے خاص الخاص تصور کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیویندرفڈنویس بھی اسی ناگپور سے اسمبلی میں پہنچے ہیں۔ ان کی کامیابی کے لیے نہ صرف یہ کہ آر ایس ایس کے پورے کیڈر نے کام کیا تھا بلکہ نتن گڈکری سے لے کر دیویندرفڈنویس تک نے انہیں جتانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔ مگر کانگریس کے امیدوار کے سامنے وہ اپنے امیدوار کو کامیاب نہیں کراسکے۔
Published: undefined
بی جے پی کو دوسری بڑی سرجیکل اسٹرائیک کا سامنا پونے میں کرنا پڑا جہاں کی گریجویٹ سیٹ پر اس کا گزشتہ 20 سالوں سے قبضہ رہا ہے۔ اس سیٹ پر این سی پی کے امیدوار ارون لاڈ نے بی جے پی کے امیدوار سنگرام دیشمکھ کو 48 ہزار سے زائد ووٹوں سے ایسی بری پٹخنی دی کہ بی جے پی کے ریاستی لیڈران بلبلا اٹھے کہ ہم نے تینوں پارٹیوں (کانگریس، این سی پی وشیوسینا) کی مشترکہ طاقت کا اندازہ لگانے میں غلطی کی۔ اس سیٹ سے ریاستی بی جے پی کے صدر چندرکانت پاٹل دو بار کامیاب ہوچکے ہیں اور یہاں سے بی جے پی کے امیدوار کو کامیاب کرانے کے لیے پاٹل اور فڈنویس نے بھرپور محنت کی تھی۔ چندرکانت پاٹل نے تو پونے میں ڈیرہ ڈال دیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ بی جے پی والے یہ اعلان کرتے گھوم رہے تھے کہ ہم تو یہ سیٹ جیت چکے ہیں، بس اعلان ہونے کی فارملیٹی باقی ہے۔ لیکن انتخابات کے بعد جب جیت کا اعلان ہوا تو معلوم ہوا کہ بی جے پی کو دن میں تارے نظر آنے لگے۔
Published: undefined
کچھ ایسی ہی صورت حال اورنگ آباد سیٹ کی بھی رہی جہاں این سی پی کے ستیش چوہان نے تیسری بار کامیابی حاصل کی۔ یہاں این سی پی کے امیدوار 1,16,638ووٹ ملے جبکہ بی جے پی کے امیدوار شریش بورلکر کو محض58,743 ووٹ حاصل ہوئے۔ اس سیٹ کی کہانی یہ ہے کہ اسے بی جے پی کے سابق وزیراعلیٰ فڈنویس اور ریاستی صدر چندرکانت پاٹل نے علانیہ طور پر چھین لینے کا چیلنج کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہماری روایتی سیٹ ہے جہاں سے اس بار بی جے پی کا ہی امیدوار کامیاب ہوگا۔ ناگپور و پونے کی مانند اس سیٹ پر بھی بی جے پی نے اپنی پوری طاقت جھونک رکھی تھی، مگر این سی پی سپریمو شردپوار کی محض ایک دورے کا بوجھ بھی وہ برداشت نہیں کرسکی۔ جبکہ بی جے پی نے الیکشن سے قبل کی اپنی پوری بساط نہایت منصوبہ بندی کے ساتھ بچھاچکی تھی۔ این سی پی کے امیدوار کو ہرانے کے لیے یہاں سے کل 34 امیدوار میدان میں اترے تھے، جن میں سے سیکولر ووٹوں کو تقسیم کرنے والے دلالوں کی تعداد 30 سے زائد بتائی جاتی ہے۔ سیکولر ووٹوں کی تقسیم کے لیے تقریباً ہر علاقے میں ایک امیدوار موجود تھا۔ مگر اس کے باوجود بی جے پی کو یہاں منہ کی کھانی پڑی۔
Published: undefined
البتہ دھولیہ نندوربار کی ایک سیٹ ایسی ہے جہاں سے بی جے پی کو واضح طور پر کامیابی ملی ہے، مگر اس کامیابی کا بھی اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بھلے ہی یہاں کا امیدوار بی جے پی کے انتخابی نشان پر کامیاب ہوا ہے، مگر وہ بنیادی طور پر کانگریس کا امیدوار تھا۔ بی جے پی نے یہاں سے کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے والے امریش پٹیل کو اپنا امیدوار بنایا۔ یہ امریش پٹیل اسی حلقے سے کانگریس کے ایم ایل سی تھے، مگر جب انہیں اندازہ ہوا کہ کانگریس، این سی پی وشیوسینا میں اتحاد کی وجہ سے اس سیٹ سے ان کی امیدواری خطرے میں پڑسکتی ہے تو انہوں نے آیا رام گیا رام کی مانند بی جے پی کا دامن تھام لیا۔ بی جے پی نے یہاں سے انہیں اپنا امیدوار بنایا اور وہ یہ سیٹ جیت بھی گئے۔ اس جیت کے بعد بی جے پی کے ریاستی صدر یہ دعویٰ کرتے نظر آئے کہ اگر ہمیں محض ایک سیٹ ملی تو کیا ہوا، شیوسینا کو تو ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔ یعنی گرے تو بھی ٹانگیں اوپر۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اگر امریش پٹیل کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شامل نہیں ہوتے تو بی جے پی کے پاس ایسا کوئی بھی چہرہ تک نہیں تھا، جسے وہ یہاں سے اپنا امیدوار بناکر کامیاب کراسکتی۔
Published: undefined
اب آخری بات۔ بی جے پی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ شہری عوام کی پارٹی ہے یعنی شہروں میں رہنے والی عوام میں اس کی پکڑ مضبوط ہے۔ مگر مہاراشٹر میں ایم ایل سی انتخابات کے جو نتائج آئے ہیں وہ اس بات پر مہر لگانے کے لیے کافی ہیں کہ اب شہری عوام بھی بی جے پی سے بری طرح بدظن ہوچکے ہیں۔ کیونکہ ایم ایل سی کی یہ تمام سیٹیں شہری علاقوں کی ہیں اور ان میں سے ایک چھوڑ کر بقیہ پانچ پر بی جے پی کو بری طرح ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بی جے پی کی جوڑ توڑ، پیسوں کی لالچ اور مرکزی ایجنسیوں کی دھمکی والی سیاست اب اپنا اثر کھوتی جارہی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ خبر یہ بھی ہے کہ راجستھان کے ساتھ مہاراشٹر میں بی جے پی ایک بار پھر آپریشن لوٹس کی ابتداء کرچکی ہے، یعنی کہ اگر عوام کے ووٹوں سے وہ حکومت بنانے میں ناکام ہوئی ہے تو دھنا سیٹھوں وصنعتکاروں کے پیسوں کے بل بوتے پر حکومت بنانے کی کوششوں میں لگ گئی ہے۔ اب اس کوشش میں وہ کتنی کامیاب ہوتی ہے؟ یہ تو کہنا قبل ازوقت ہوگا، مگر قرائن بتاتے ہیں کہ مہاراشٹر میں اس کا داؤ کامیاب نہیں ہوسکے گا، کیونکہ مہاراشٹر میں مہاوکاس اگھاڑی نے بی جے پی کو گھر میں گھس کر مارنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined