اکولا میں ہفتہ کے روز ہونے والے تشدد کو 35 گھنٹے سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور وہاں آج تیسرے دن بھی دفعہ 144 نافذ ہے۔ نیوز پورٹل ’آج تک‘ پر شائع ایک خبر کے مطابق 4 تھانوں کے علاقوں میں جہاں کرفیو نافذ ہے، وہاں پولیس کا پہرہ ہے۔ سوشل میڈیا پر کی گئی ایک قابل اعتراض پوسٹ پر ہفتہ کو ہونے والے تشدد کے سلسلے میں اب تک 82 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہی نہیں انٹرنیٹ پر پابندی بھی برقرار ہے۔ اکولا میں یونیورسٹی کے امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں اور 300 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
Published: undefined
اس درمیان مہاراشٹر کے وزیر گریش مہاجن نے دعویٰ کیا ہے کہ اکولا میں دو طبقات کے درمیان ہوا تصادم غالباً منصوبہ بند سازش کا نتیجہ تھا۔ مہاجن نے تشدد میں مارے گئے شخص سے بھی ملاقات کی اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے جانکاری دی کہ نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے مہلوک کے اہل خانہ کو چار لاکھ روپے امدادی رقم دینے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے مہلوک کے رشتہ داروں کو سرکاری امداد کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ مہاراشٹر کے اکولا میں ہفتہ کو ایک انسٹاگرام پوسٹ پر دو برادریوں کے درمیان تصادم ہوا۔ اس کے بعد کافی پتھراؤ ہوا۔ شرپسندوں نے اس دوران کئی گاڑیوں میں توڑ پھوڑ کی۔ تشدد کے دوران ایک شخص کی موت بھی ہو گئی تھی، جبکہ دو پولیس اہلکار سمیت 9 افراد زخمی ہوئے۔ اس کے بعد علاقے میں بڑی تعداد میں پولیس فورس تعینات کر کے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی اور پولیس اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹ رہی ہے۔ دراصل، پرانے شہر اکولا میں انسٹاگرام پر ایک مذہبی پوسٹ کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے اور پولیس اسٹیشن پہنچ کر شکایت درج کرائی۔ پولیس نے اس معاملے میں کیس درج کر لیا۔ اس دوران تھانے پہنچی بھیڑ بے قابو ہو گئی اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ شروع کر دی۔
Published: undefined
تشدد میں ولاس گائیکواڈ کی موت ہو گئی تھی۔ ولاس 40 سال کا الیکٹریشین تھا۔ پولیس کے مطابق، ہجوم نے سوشل میڈیا پر ایک قابل اعتراض پوسٹ کی شکایت کے بعد تھانے میں توڑ پھوڑ کی۔ کچھ ہی دیر میں دوسری برادری کے لوگ سامنے آ گئے۔ انہوں نے بھی پتھراؤ شروع کر دیا۔ دونوں فریقوں کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی۔ پولیس نے حالات پر قابو پانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔ شرپسندوں پر آنسو گیس کے گولے چھوڑے گئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز