ممبئی: ریاست مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات کے دوران سابق اقلیتی امور کے وزیر و کانگریس کے قدآور مسلم لیڈر محمد عارف نسیم خان کی شکست دراصل آر ایس ایس و وشو ہندو پریشد کے خفیہ منصوبے کی کامیابی ہے نیز ان انتخابات کے دوران سیکولر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مسلم امیدواروں کی شکست کا سبب بننے والے نام نہاد مسلم شخصیات کے خلاف صف آرا ہونا چاہیے جن کی وجہ سے بھگوا سیاسی جماعتوں کے خفیہ منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا جاسکا اور مسلم امیدواروں کی ایک بڑی تعداد کو ایوان اسمبلی کی رکنیت حاصل ہونے سے محروم ہونا پڑا۔ ان خیالات کا اظہار آج یہاں عروس البلاد ممبئی کے علماء کرام اور دانشوروں نے کیا۔
Published: 28 Oct 2019, 12:11 PM IST
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا سید اطہر علی نے کہا کہ مہاراشٹر اسمبلی کے نتائج ملّت کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ سیکولر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے15 سے زائد ایسے امیدوار تھے جو محض چند ووٹوں سے اس لئے ہار گئے کیونکہ مجلس اتحادالمسلمین سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں نے اتنے زیادہ ووٹ حاصل کر لئے جو سیکولر پارٹیوں کے نمائندوں کی شکست کا باعث بنے اور زعفرانی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کی فتح کی وجہ بنے۔ انہوں نے کہا کہ ان سیکولر امیدواروں کی شکست کا باعث بنے جس میں خود ہماری قوم کی ان نام نہاد شخصیات نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے جنہوں نے کھل کر بھگوا سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی حمایت کی اور آر ایس ایس کے منصوبے کو کامیاب کیا۔
Published: 28 Oct 2019, 12:11 PM IST
مولانا سید اطہر علی نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی مثال سابق وزیر محمد عارف نسیم خان کی محض چار سو ووٹوں سے شکست کی ہے جو صرف اس لئے ہار گئے کیونکہ ان کے مقابل تین مسلم امیدواروں نے ہزاروں ووٹ کاٹ لئے نتیجتاً امّت مسلمہ ایک ایسے قدآور مسلم لیڈر سے محروم ہو گئی جو ایوان اسمبلی میں بے باکی کے ساتھ مسلم مسائل اٹھاتے تھے اور ایوان کے باہر بھی وہ مسلمانوں کی بے خوف ہو کر نمائندگی کرتے تھے۔ مولانا سید اطہر علی سے جب یہ دریافت کیا گیا کہ آیا ایسی شخصیات کے خلاف کیا مسلمانوں کو ان کا سماجی بائیکاٹ کرنا چاہیے تو انہوں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ امت کے ذمہ دار ایک ہو کر اس سلسلےمیں جلد از جلد پیش رفت کریں۔
Published: 28 Oct 2019, 12:11 PM IST
نامور تعلیمی ادارہ انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی نے کہا کہ یہ افسوسناک امر ہے کہ ان انتخابات میں سیکولر جماعت سے تعلق رکھنے والے اور مسلم نمائندے محض چند ووٹوں سے اس لئے ہار گئے کہ ان کے مقابل ایسے مسلم امیدوار کھڑے تھے جن کا کم ووٹ حاصل کرنا ہی واحد ان کی شکست کا سبب بنا۔
Published: 28 Oct 2019, 12:11 PM IST
ڈاکٹر ظہیر قاضی نے کہا کہ نسیم خان کی ایوان کی رکنیت سے محروم رہنا مہاراشٹر کے مسلمانوں کا ایک بڑا نقصان ہے جس کی تلافی ناممکن ہے لیکن اب بھی وقت ہے کہ ملت میں اتحاد پیدا ہو اور ایسے عناصر کے خلاف متحدہ طور پر مہم چلائی جائے جو مسلم لیڈر شپ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
Published: 28 Oct 2019, 12:11 PM IST
آل انڈیا علماء کونسل کے جنرل سکریٹری مولانا محمود دریا بادی نے کہا کہ انتخابات کے آمد سے قبل ہماری قوم میں زور شور سے اتحاد ملت کی بات ہوتی ہے لیکن جوں ہی انتخابات کی تاریخیں نزدیک آتی ہیں ہر کوئی اپنی سیاسی دوکان چلانے لگتا ہے جس سے اجتماعی طور پر قوم کا نقصان ہوتا ہےاور فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار میں آنے کا موقعہ حاصل ہوتا ہے۔
Published: 28 Oct 2019, 12:11 PM IST
مولانا محمود دریابادی نے مزید کہا کہ رپورے ریاست کے مسلمانوں کی نگاہیں کانگریس امیدوار نسیم خان کی نشست پر مرکوز تھی لیکن نتیجہ مایوس کن نکلا اور نسیم خان صرف چار سو ووٹوں سے ہار گئے اس طر ح سے ایک بے باک لیڈر کو اقتدار میں آنے سے محروم ہونا پڑا لہذا اب کانگریس پارٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ جب بھی کوئی ضمنی انتخاب ہو یا قانون ساز کونسل یا راجیہ سبھا کی ممبر شپ دینے کا معاملہ ہو اس میں نسیم خان کے نام پر غور کر کے انہیں نمائندگی دی جائے۔
Published: 28 Oct 2019, 12:11 PM IST
واضح رہے کہ ریاست کی چاندیولی، ناگپور سینٹرل، پونے کنٹونمنٹ، پیٹھن، ناندیڑ، کامٹی اور دیگر اسمبلی حلقوں سے سینا بی جے پی کے امیدواروں کی فتح کا باعث صرف اور صرف وہ مسلم امیدوار تھے جو صرف چند ہزار ووٹ حاصل کر سکے۔ اس طرح سے آر ایس ایس کا خفیہ منصوبہ کامیاب ہو گیا اور مسلمان ہاتھ ملتے رہ گئے۔
Published: 28 Oct 2019, 12:11 PM IST
ذرائع کے مطابق دوران انتخاب نسیم خان کو وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی جس کی انہوں نے باقائدہ تحریری شکایت مقامی پولس اسٹیشن کے علاوہ انسداد دہشت گرد دستہ میں بھی کی تھی لیکن کوئی مثبت کارروائی نہیں ہوئی البتہ یہ بھی خبر ہے کہ انتخابات سے دو دن قبل آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد نے ان کے حلقہ انتخاب میں خفیہ میٹنگ لے کر اکثریتی فرقہ کو ورغلایا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ ووٹنگ سے ایک دن قبل شیوسینا سربراہ ادھو ٹھاکرے نے انتخابی مہم کے خاتمہ کے بعد غیر قانونی طریقے سے چاندیولی حلقہ انتخاب کا دورہ کر کے اکثریتی فرقہ کو شیوسینا کے امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لئے دباؤ ڈالا تھا اس کی بھی شکایت پولس اسٹیشن میں کی گئی تھی۔
Published: 28 Oct 2019, 12:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 28 Oct 2019, 12:11 PM IST