مہاراشٹر میں بی جے پی کے ریاستی صدر چندرکانت باونکلے کے ایک بیان سے ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے۔ چندرکانت نے پارٹی کی ایک میٹنگ میں کہا کہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں مہاراشٹر کی 288 اسمبلی سیٹوں میں سے بی جے پی 240 پر لڑے گی، جبکہ شندے والی شیوسینا کو صرف 48 سیٹیں ہی دی جائیں گی۔ ایسا اس لیے کیونکہ ان کے ساتھ اتنے ہی اراکین اسمبلی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انھوں نے کہا تھا کہ اگر شندے کو زیادہ سیٹیں دے بھی دیں تو ان کے پاس امیدوار کہاں ہیں۔
یہ بات سامنے آنے کے بعد سے شندے گروپ پریشان ہے۔ دوسری طرف ادھو ٹھاکرے گروپ نے یہ کہہ کر شندے کو چڑھانا شروع کر دیا ہے کہ ’’ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا!‘‘
Published: undefined
واضح رہے کہ ادھو ٹھاکرے اور بی جے پی کے رشتوں میں تلخی کی اہم وجہ یہی تھی کہ بی جے پی شیوسینا کو کمتر سمجھ رہی تھی۔ بی جے پی نے دراصل بالا صاحب ٹھاکرے کا استعمال کر مہاراشٹر میں اپنے پیر جمائے تھے، اور جیسے ہی مودی اعلیٰ مقام پر پہنچے اسے لگنے لگا کہ وہ اب شیوسینا کو درکنار کر سکتی ہے۔ لیکن ادھو ٹھاکرے نے بی جے پی کے ان منصوبوں پر پانی پھیر دیا اور اپنی شرطیں نہ ماننے پر بی جے پی کے ساتھ شیوسینا کا کئی دہائی پرانا رشتہ توڑ دیا تھا۔
Published: undefined
مہاراشٹر میں 2014 کے اسمبلی انتخاب کے وقت بھی دونوں پارٹیوں کے درمیان سیٹ بٹوارے کو لے کر پینچ پھنسا تھا۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان ہمیشہ یہی انتظام رہا کہ شیوسینا 171 سیٹوں پر اور بی جے پی 117 سیٹوں پر انتخاب لڑے گی۔ لیکن بی جے پی کی بھوک بڑھ چکی تھی اور اسے لگنے لگا کہ وہ اپنی طاقت پر انتخاب جیت جائے گی۔ مودی کے انتخابی میدان میں اترنے کے باوجود بی جے پی اکثریت کو نہیں چھو پائی اور اسے مجبوراً شیوسینا کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا تھا۔
Published: undefined
اسی طرح 2019 کے اسمبلی انتخاب میں بھی حالات بنے۔ لیکن تب تک ادھو ٹھاکرے بی جے پی کا گیم پلان سمجھ چکے تھے کہ بی جے پی تب تک ہی ان سے دوستی نبھائے گی جب تک کہ وہ اپنی طاقت پر مہاراشٹر میں اکثریت حاصل کرنے کی حالت میں نہیں آ جاتی۔ اسی کا نتیجہ رہا کہ مہاراشٹر میں کانگریس-این سی پی-شیوسینا کا ’مہاوکاس اگھاڑی‘ اتحاد قائم ہوا۔
Published: undefined
اب اسی قسم کی حالت شندے کے ساتھ بن رہی ہے اور انھیں اس کا احساس بھی کرایا جانے لگا ہے۔ اس بار تو کسی بھی سنجیدہ گفتگو کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جا رہی ہے۔ سبھی کو معلوم ہے کہ ایکناتھ شندے کے پاس وہ کرشمہ نہیں ہے جو ادھو ٹھاکرے کے پاس ہے۔ بھلے ہی ادھو اپنے والد بالاصاحب ٹھاکرے سے الگ ہیں، پھر بھی ادھو اپنی خودداری کے ساتھ اور سر اونچا کر کے کہہ سکتے ہیں کہ وہ بال ٹھاکرے کے بیٹے ہیں اور انھوں نے سر نہیں جھکایا، اور لوگوں میں ان کے اسی تیور کو لے کر ہمدردی بھی ہے۔
Published: undefined
شندے کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اتنا ہی نہیں، شیوسینا ووٹروں اور حامیوں کا بڑا حصہ یہ مانتا ہے کہ شندے نے پارٹی کو برباد کرنے کی کوشش کی اور مہاراشٹر میں مراٹھیوں اور گجراتوں کی روایتی لڑائی کو درکنار کرتے ہوئے مودی-شاہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ اگر شندے کو بی جے پی دھکا دے کر ایک کونے میں کھسکا دیتی ہے تو وہ صرف بی جے پی کے ’پچھ لگو‘ ہی بن کر رہ جائیں گے، اور ایسی حالت میں ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں کانگریس-این سی پی کے ساتھ مہاوکاس اگھاڑی انتخابات میں شندے کا صفایہ کر دے گی۔
Published: undefined
چندرکانت باونکلے کے بیان کی شندے گروپ کے اراکین اسمبلی مخالفت تو کر رہے ہیں، ایسے میں باونکلے نے بھی اوپری دل سے صفائی دی ہے کہ ان کے بیان کو غلط سمجھا گیا ہے۔ لیکن ایک پیغام تو عام لوگوں اور ووٹروں کے درمیان چلا ہی گیا ہے جسے ادھو ٹھاکرے کھل کر کہتے رہے ہیں کہ بی جے پی کا مقصد کسی بھی حال میں شیوسینا کو ختم کرنا ہے۔ حالانکہ یہ بات بھی ہے کہ بی جے پی کے لیے ایکناتھ شندے کی قیادت والی شیوسینا کو کچلنا کافی آسان ہوگا۔
Published: undefined
اسی ضمن میں شندے گروپ کے رکن اسمبلی سنجے گائیکواڈ کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کم از کم 140 سیٹوں پر انتخاب لڑے گی۔ یہی مطالبہ تو ادھو ٹھاکرے 2014 سے بی جے پی کے سامنے رکھ رہے تھے، لیکن بی جے پی 125 سے زیادہ سیٹیں شیوسینا کو دینے کو تیار ہی نہیں تھی۔ اور امکان تو یہی ہے کہ کسی بھی قیمت پر بی جے پی 100 کے آس پاس سیتیں ہی شندے کی طرف پھینکے گی۔
Published: undefined
یوں تو مہاراشٹر اسمبلی انتخاب ابھی دور ہیں، لیکن فی الحال جو سیاسی حالات بن رہے ہیں ان میں ایکناتھ شندے کو اپنے سیاسی دشمنوں سے کہیں زیادہ اپنے سیاسی دوستوں اور اتحادی ساتھیوں سے خطرہ ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز