مدھیہ پردیش کے انتخابی اکھاڑے میں چھوٹے موٹے اور انتخاب کے وقت پیدا ہونے والے موسمی سیاسی پارٹیوں کا سیلاب تو آتا رہتا تھا، لیکن اس بار سادھو-سنتوں نے بھی اپنی موجودگی درج کرانے کی ٹھان لی ہے۔ اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی تاجپوشی، تلنگانہ میں بی جے پی کی جانب سے پریپورنا نند کو مل رہی توجہ اور مدھیہ پردیش میں وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کے ذریعہ پانچ سادھو-سنتوں کو ریاستی وزیر کا درجہ دینے کے ساتھ ہی اب سادھو-سنتوں کی سیاسی خواہشات بھی ہلوریں مارنے لگی ہیں۔ ریاست میں سادھوی اوما بھارتی بھی کچھ مہینوں کے لیے وزیر اعلیٰ رہ چکی ہیں، لیکن اس وقت ان کے علاوہ کوئی سادھو-سنت اسمبلی میں داخل نہیں ہو پایا تھا۔ اس اسمبلی انتخاب میں سادھو سنتوں کو بی جے پی کے ذریعہ ٹکٹ میں کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے، اس لیے وہ اپنی اپنی پارٹی بنا کر انتخابی میدان میں اتر رہے ہیں۔ مہا منڈلیشور کے عہدہ سے محروم کیے گئے کمپیوٹر بابا جگہ جگہ شیوراج حکومت کو اکھاڑنے کے لیے میٹنگیں کر رہے ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ ابھی تک سادھو-سنتوں کے لیے کچھ خاص نہیں رہنے والی مدھیہ پردیش کی سیاسی فضا اب انھیں کتنی اہمیت دیتی ہے۔
مدھیہ پردیش میں اس بار بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر کئی سادھو-سنت انتخابی میدان میں اتر گئے ہیں۔ شیوراج حکومت میں ریاستی وزیر کا درجہ حال ہی میں چھوڑنے والے کمپیوٹر بابا نے وزیر اعلیٰ کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ کمپیوٹر بابا اس وقت ریاست میں جگہ جگہ سنت سماگم کر رہے ہیں۔ بابا کے سماگم میں ہزاروں کی تعداد میں بھیڑ جمع ہو رہی ہے۔ سماگم میں بابا ’من کی بات‘ کر کے شیوراج حکومت کے خلاف ماحول تیار کر رہے ہیں۔
کمپیوٹر بابا کے علاوہ دیوکی نندن ٹھاکر اور پنڈوکھر سرکار کے نام سے مشہور گرو شرن مہاراج نے بھی ریاست سے بی جے پی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے پوری طاقت لگا دی ہے۔
دیوکی نندن ٹھاکر نے ’سرو سماج کلیان پارٹی‘ بنا دی ہے اور ریاست کی سبھی 230 اسمبلی سیٹوں پر انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ایس سی-ایس ٹی ایکٹ میں ترمیم کے بعد حکومتوں کے خلاف کھل کر بولنے والے ’اکھنڈ بھارت مشن‘ کے قومی صدر دیوکی نندن ٹھاکر نے کہا ’’ہم کب سے رام مندر بنانے کو کہہ رہے ہیں۔ بی جے پی نے مندر تو نہیں بنایا، لیکن ایس سی-ایس ٹی مظالم ختم کرنے کا قانون بنا دیا۔ حکومت نہ تو دفعہ 370 ختم کر پائی اور نہ ہی گئوکشی بند کرا پائی۔‘‘
Published: undefined
پنڈوکھر حکومت نے بھی نئی سیاسی پارٹی ’سانجھی وراثت پارٹی‘ تشکیل دی ہے۔ اس دوران گروشرن مہاراج نے بتایا کہ یہ پارٹی ریاست کی 50 سے زیادہ اسمبلی سیٹوں پر امیدوار اتارے گی۔ بقیہ سیٹوں پر یکساں سوچ والے سیاسی پارٹیوں کی حمایت کرے گی۔ قابل ذکر ہے کہ پنڈوکھر سرکار بھی شیوراج حکومت میں سنتوں کو نظر انداز کیے جانے اور ایس سی-ایس ٹی ایکٹ پر حکومت کے قدم کے خلاف انتخابی میدان میں اترے ہیں۔
Published: undefined
انتخابی میدان میں کیوں اترے سادھو-سَنت؟
مدھیہ پردیش میں پہلی بار سَنت سماج اتنے بڑے پیمانے پر سیاست میں دخل دے رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ایس سی-ایس ٹی ایکٹ پر حکومت کے ذریعہ اٹھایا گیا قدم ہے۔ ساتھ ہی بی جے پی کے ذریعہ سَنتوں کو اقتدار میں بٹھانے سے بھی سَنت سماج کے اندر سیاسی خواہشات بڑھی ہیں۔
دراصل سادھوی اوما بھارتی، ریاستی وزیر سادھوی نرنجن جیوتی، ساکشی مہاراج اور یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو دیکھ کر سَنت سماج کی سیاست کے تئیں دلچسپی بڑھی تھی۔ وہیں، اسی سال اپریل میں وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے بھیو جی مہاراج سمیت پانچ سَنتوں کو ریاستی وزیر کا درجہ دے کر ریاست کے سَنتوں کی امیدوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔ جن سَنتوں کو ریاستی وزیر کا درجہ دیا گیا تھا ان میں نرمدانند جی، ہریہرانند جی، کمپیوٹر بابا جی، بھیو جی مہاراج اور یوگیندر مہنت جی شامل تھے۔ شیوراج حکومت کے ذریعہ ان سَنتوں کو ریاستی وزیر کا درجہ دینے کے بعد کئی اور سَنتوں نے بی جے پی سے ٹکٹ کا مطالبہ کر دیا تھا۔
ان سَنتوں میں رائے سین ضلع کے سنت روی ناتھ مہیوالے، اجین ضلع کے بابا اودھیش پوری اور سیونی ضلع کے سَنت مدن موہن کھڑیشوری مہاراج بی جے پی سے ٹکٹ مانگنے والوں میں اہم ہیں۔ یہ سبھی سَنت بی جے پی سے ٹکٹ نہ ملنے کے بعد کانگریس کے ٹکٹ پر یا پھر آزادانہ انتخاب لڑنے کی دھمکی بھی دے رہے تھے۔
Published: undefined
انتخابات پر کیا پڑے گا اثر؟
ریاست کے اسمبلی انتخابات میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اترے تقریباً سبھی سَنت یا تو ایس سی-ایس ٹی ایکٹ یا پھر ریزرویشن کے ایشو پر حکومت کے رخ سے ناراض ہیں۔ کئی سَنت ایسے ہیں جو بی جے پی حکومت میں ہوئے نرمدا گھوٹالہ اور نرمدا میں چل رہی غیر قانونی کانکنی کے خلاف انتخابی میدان میں اترے ہیں۔ ویسے ایک بات صاف ہے کہ انتخابی میدان میں اترے تقریباً سبھی سَنت یا تو بی جے پی کے خلاف ہیں یا پھر اس سے ناراض ہیں۔ اس لیے ان کا سیاست میں قدم رکھنا بی جے پی کے لیے نقصاندہ ہوگا۔ یہ سَنت انتخاب کے بعد حکومت بھلے ہی نہ بنا پائیں لیکن انتخاب میں ان کی موجودگی سے بی جے پی کے اعلیٰ ذات پر مبنی ووٹ بینک کو زبردست نقصان ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined