اتر پردیش میں ایک مسلم خاتون ٹیچر کو محض اس لیے اسکول سے نکالے جانے کا معاملہ سامنے آیا ہے کیونکہ وہ حجاب کا استعمال کرتی تھی۔ ذرائع کے مطابق اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں ٹھاکر گنج واقع ’سپر مانٹیسری اسکول‘ (ایس ایم ایس) کی خاتون ٹیچر فاطمہ حسن کو حجاب پہن کر کلاس لینے سے منع کیا گیا اور بتایا گیا کہ ان کے حجاب پہننے کی وجہ سے اسکول کو نقصان ہو رہا ہے اس لیے وہ یا تو اپنا حجاب نکال دیں یا پھر ملازمت کو خیر باد کہہ دیں۔
بتایا جاتا ہے کہ فاطمہ حسن ایس ایم ایس میں انگریزی کی ٹیچر تھیں اور وہ یہاں تقریباً ایک سال سے پڑھا رہی تھیں۔ انھوں نے ہمیشہ سے حجاب کا استعمال کیا تھا اور کبھی اس کے لیے انھیں منع بھی نہیں کیا گیا تھا، لیکن گزشتہ مہینے پرنسپل نے کہا کہ انھیں حجاب کے بغیر اسکول میں بچوں کو پڑھانا ہوگا کیونکہ اس سے اسکول کو خسارہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ فاطمہ حسن میڈیا سے بات چیت کے دوران اس تعلق سے بتاتی ہیں کہ ’’پرنسپل کا کہنا ہے کہ کسی بچے کے سرپرست نے ان سے میرے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ اردو یا دینیات کی ٹیچر ہیں۔ پرنسپل اس شخص کو نہیں پہچانتے، لیکن انھوں نے مجھ سے کہا کہ حجاب میں دیکھ کر کئی والدین اپنے بچوں کو یہاں سے نکال رہے ہیں۔‘‘
فاطمہ حسن یہ بھی بتاتی ہیں کہ انھیں اسکول کے سیکنڈ فلور پر رہنے کی اجازت دی گئی تھی تاکہ بچوں کے سرپرست انھیں نہ دیکھ سکیں، لیکن چونکہ سیکنڈ فلور پر ایک فیملی رہتی تھی اور وہاں وہ تنہا نہیں رہ سکتی تھی اس لیے کسی اور کو بھی ان کے ساتھ اوپر بھیجنے کے لیے کہا جس پر پرنسپل کو اعتراض ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ پرنسپل نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ یا تو تم اوپر تنہا رہو یا پھر استعفیٰ دے دو۔
Published: 13 Nov 2018, 10:09 PM IST
مجبوراً فاطمہ حسن نے گزشتہ 3 نومبر کو استعفیٰ نامہ پیش کر دیا اور اس استعفیٰ نامہ میں انھوں نے واضح لفظوں میں لکھا کہ انھیں حجاب اتار کر ملازمت کے لیے کہا گیا جو انھیں منظور نہیں، اس لیے وہ استعفیٰ دے رہی ہیں۔ فاطمہ حسن نے اپنے عقیدے کے خلاف جانے سے صاف منع کر دیا اور مذہب کی بنیاد پر تفریق آمیز رویہ کو برداشت کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ حالانکہ انھوں نے استعفیٰ نامہ 3 نومبر کو ہی دے دیا تھا لیکن اس بات کی خبر اب علاقے میں پھیل رہی ہے اور لوگوں نے اس طرح کے قدم پر حیرانی ظاہر کی ہے۔
Published: 13 Nov 2018, 10:09 PM IST
ذرائع کے مطابق ایس ایم ایس میں دراصل بورڈنگ اسکول کا بھی انتظام ہے اس لیے وہاں ٹیچرس کو رہنے کی سہولت بھی ہے۔ فاطمہ حسن سے کہا جا رہا تھا کہ وہ اگر حجاب میں رہنا چاہتی ہیں تو اپنی رہائش میں ہی رہیں اور اسکول احاطہ یا کلاس میں نہ آئیں، کیونکہ اس سے لوگوں کی نظر ان پر پڑ سکتی ہے۔
بہر حال، فاطمہ حسن کا کہنا ہے کہ جب مینجمنٹ نے ان سے حجاب کے متعلق ٹوکا اور کہا کہ ’یہ اسکول ہے، کوئی مدرسہ نہیں‘، تو میں حیران ہوئی۔ فاطمہ مزید کہتی ہیں کہ ’’جب میں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو مجھ سے استعفیٰ مانگا گیا۔ میں نےکوئی راستہ نکلتا نہیں دیکھ استعفیٰ نامہ دے دیا اور اس میں اس بات کا تذکرہ کیا کہ مجھ سے زبردست عہدہ چھوڑنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔‘‘
Published: 13 Nov 2018, 10:09 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 13 Nov 2018, 10:09 PM IST
تصویر: پریس ریلیز