قومی خبریں

لکھنؤ: حراستی موت کی مجسٹریٹ جانچ کا حکم، یوپی پولیس سوالوں کے گھیرے میں، مزید 2 اہلکاروں کا تبادلہ

حراستی موت کے معاملے میں مجسٹریٹ جانچ کا فیصلہ کیا گیا ہے، جبکہ دو اہلکاروں کا تبادلہ بھی کیا گیا ہے۔ مہلوک کے اہل خانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس نے پٹائی کرنے والوں کی شناخت کو چھپایا ہے

<div class="paragraphs"><p>موت علامتی تصویر/ سوشل میڈیا</p></div>

موت علامتی تصویر/ سوشل میڈیا

 

 اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ کے چنہٹ تھانہ میں پولیس حراست میں موہت پانڈے کی موت سرخیوں میں ہے۔ اس موت کو لے کر یوپی حکومت سوالوں کے گھیرے میں آ گئی ہے۔ اس درمیان اس معاملے کی مجسٹریٹ جانچ کا حکم دے دیا گیا ہے۔ دراصل ایس پی وبھوتی کھنڈ نے لکھنؤ کے ضلع مجسٹریٹ کو اس کیس کی مجسٹریٹ جانچ کے حکم کے لیے خط لکھا تھا۔

Published: undefined

دوسری طرف چنہٹ تھانہ کے انسپکٹر اشونی چترویدی کی معطلی کے بعد دو دیگر انسپکٹروں کا بھی تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ چنہٹ تھانہ میں اضافی انسپکٹر پرکاش سنگھ کو آشیانہ بھیجا گیا ہے جبکہ انسپکٹر آنند بھوشن بیلدار کو گومتی نگر وِستار تھانہ بھیج دیا گیا ہے۔ وہیں آشیانہ میں تعینات سب انسکٹر شفاعت اللہ خان کو سینئر انسپکٹر چنہٹ بنایا گیا ہے۔

Published: undefined

فی الحال موہت پانڈے کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آ گئی ہے لیکن اس میں موت کا سبب واضح نہیں ہے۔ اس لیے وِسرا کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ ساتھ ہی مہلوک کے اہل خانہ کی تحریری شکایت کی بنیاد پر ملزم پولیس والوں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ ویسے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موہت کے جسم پر چوٹ کے نشان پائے گئے ہیں۔ پولیس اس کی وجہ موہت اور آدیش کے درمیان ہوئی مار پیٹ کو بتا رہی ہے۔ حالانکہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ اگر موہت زخمی تھا تو اسے لاک اَپ میں کیوں ڈالا گیا؟ پولیس نے ملزمین کے خلاف رپورٹ کیوں درج نہیں کی؟

Published: undefined

ادھر موہت کے رشتہ داروں  کا الزام ہے کہ جن پولیس ملازمین نے موہت کی پٹائی کی تھی ان کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی ہے جبکہ ڈی سی پی کا کہنا ہے کہ جانچ کے دوران جو بھی شواہد سامنے آئیں گے اس کی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی۔ قابل ذکر ہے کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے مہلوک موہت پانڈے کے اہل خانہ سے ملاقات کی تھی اور ملزمین کے خلاف سخت کارروائی کی یقین دہانی کرائی تھی۔  

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined