اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ میں شامل پارٹیوں کے 21 اراکین پارلیمنٹ اس وقت منی پور کے دورہ پر ہیں۔ ’انڈیا‘ کا نمائندہ وفد منی پور کے دو روزہ دورے پر آج ہی وہاں پہنچا ہے اور مختلف علاقوں میں راحتی کیمپوں کا جائزہ لے رہا ہے۔ اس درمیان تشدد متاثرہ علاقہ چراچندپور واقع راحتی کیمپ میں موجود لوگوں سے وفد میں شامل لیڈروں نے ملاقات کی اور اس کے بعد کئی لیڈروں کا بیان بھی منظر عام پر آیا ہے۔ چراچندپور میں ایک راحتی کیمپ کا دورہ کرنے کے دوران کانگریس رکن پارلیمنٹ ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ ’’ان لوگوں کا چہرہ دیکھ کر صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ خوفزدہ ہیں۔ ان لوگوں کو حکومت پر بالکل بھی بھروسہ نہیں ہے۔ بہت خوفناک حالت پیدا ہو چکی ہے۔‘‘
Published: undefined
اس درمیان کانگریس رکن پارلیمنٹ گورو گگوئی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ تشدد متاثرین سے ملاقات کر ان کے حالات جاننا چاہتے ہیں اور یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے مطالبات کیا ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کے مطالبات سنے جائیں۔ ہم لوگوں کے مطالبات کی نمائندگی کرنے جا رہے ہیں۔ ہم منی پور کے لوگوں او ران کی فکر کی نمائندگی کرنے آئے ہیں۔
Published: undefined
تشدد متاثرہ افراد سے ملاقات کے بعد ترنمول کانگریس رکن پارلیمنٹ سشمتا دیو کا بھی بیان سامنے آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’لوگ پریشان ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ ہم گھر کب جائیں گے۔ حکومت ہند کو ایک نمائندہ وفد بھیجنا چاہیے تھا، انھوں نے منع کر دیا اس لیے اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کا ایک نمائندہ وفد یہاں (منی پور) آیا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ملک کے وزیر داخلہ کو 3 مئی سے پتہ نہیں تھا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ آج 90 دن بعد آپ سی بی آئی دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وزیر داخلہ کے پاس کوئی آئی بی رپورٹ نہیں تھی اور وہ ٹی وی پر بول رہے ہیں کہ ریویو کر رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
’اِنڈیا‘ کے نمائندہ وفد میں آر جے ڈی رکن پارلیمنٹ منوج جھا بھی شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم یہاں کوئی پالیسی بنا کر نہیں آئے ہیں۔ دو الگ الگ گروپ میں ہیں اور دونوں گروپوں کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ لوگوں کی باتیں سنیں۔ دراصل ان کی باتیں نہ ہی حکومت نے سنی ہیں، اور نہ ہی کسی دیگر نے۔ ہم ان کی باتیں سنیں گے اور دہلی کو یہ پیغام دیں گے کہ منی پور انڈیا، بھارت، ہندوستان کا ہی حصہ ہے، منی پور اگر اجتماعی فکر میں مبتلا ہے تو ہمیں بھی متفکر ہونا چاہیے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’الگ الگ راحتی کیمپوں میں ہر ایک طبقہ سے ہم بات کریں گے۔ میتئی ہوں، کوکی ہوں... یا کوئی دیگر، سب سے بات کریں گے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز