راجستھان میں پہلے مرحلے میں 19 اپریل کو لوک سبھا انتخابات کی 13 سیٹوں پر ہونے والے انتخابات میں بنیادی طورپر بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس کے درمیان مقابلہ ہے۔ کچھ مہینوں قبل ریاست میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے کامیابی حاصل کی تھی اور اشوک گہلوت وزیر اعلیٰ بنائے گئے تھے لہذا کانگریس خیمہ اپنی جیت کو لے کر پُر جوش ہے۔ ادھر، اسمبلی انتخابت میں کراری شکست کا سامنا کرنے کے بعد سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے کا وقار داؤ پر لگ تیا ہے۔ اگر لوک سبھا انتخابات میں بھی بی جے پی کی ہار ہوتی ہے تو وسندھرا راجے کا سیاسی کیریر ہی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
ان 13سیٹوں پر بی جے پی اور کانگرریس کے درمیان براہ راست مقابلہ ہونے کے آثار ہیں جبکہ بانس واڑا میں یہ مقابلہ سہ طرفہ بنتا جارہا ہے۔ ان سیٹوں پر ووٹنگ کےلئے اب 13 دن باقی ہیں اور سبھی امیدوار اور ان کے حامی انتخابی تشہیر میں مصروف ہیں۔ ریاست میں اقتدار میں تبدیلی آنے کے باوجود وزیراعظم نریندرمودی کے تئیں لوگوں میں اب بھی توجہ برقرار ہےاور پارٹی اور امیدواروں کو کم مودی کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جےپی کو اقتدار سے باہر کرنے کے بعد سے کانگریس کے کارکنان میں زیادہ جوش ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر سیٹوں پر بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ہی اہم مقابلہ بنتا جارہا ہے۔
وزیراعلی اشوک گہلوت کے بیٹے ویبھو گہلوت جودھپور سے الیکشن لڑ رہے ہیں جہا ان کا براہ راست مقابلہ بی جےپی کے امیدوار شیکھاوت سے ہے۔ گہلوت اور نائب وزیراعلی سچن پائلٹ سمیت دیگر لیڈر جودھپور میں ان کی حمایت میں انتخابی جلسے کرچکے ہیں۔نوجوان لیڈر ویبھو ریاست میں کانگریس کے جنرل سکریٹری ہیں اور ان کے پاس اپناکوئی طویل سیاسی تجربہ نہیں ہے،ایسے میں یہ الیکشن گہلوت اور شیکھاوت کے درمیان ہی مانا جارہا ہے۔جودھپور میں بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی)کےمکل چودھری سمیت کل دس امیدوار انتخابی میدان میں ہیں۔
اسی طرح ریاست کی جاھالا واڑ-باراں سیٹ پر محترمہ راجے کے رکن پارلیمنٹ بیٹے اور بی جےپی امیدوار دشینت سنگھ کا مقابلہ کانگریس کے نئے چہرے پرمود شرما کے درمیان ہے،جس میں شرما کے لئے بی جےپی کا گڑھ نکال کر لانا کافی مشکل لگ رہا ہے۔ دشینت مسلسل تین بار الیکشن جیت کر جھالا واڑ میں اپنی ماں کی طرح اپنے پیر جمع چکے ہیں اور ایسے میں کسی نئے چہرے کے لئے ان کا مقابلہ کرپانا کافی بڑا چیلنج ہے۔
باڑمیر-جیسلمیر پارلیمانی سی پر سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کے بیٹے سابق رکن پارلیمنٹ مانوندر سنگھ کانگریس امیدوار کے طورپر الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کا مقابلہ بی جےپی کے نئے چہرے سابق رکن اسمبلی کیلاش چودھری سے ہے۔بی ایس پی امیدوار سابق پولیس افسر پنکج چودھری کا پرچہ خارج ہونے سے اب وہاں مانوندر سنگھ اور کیلاش چودھری کے درمیان براہ راست مقابل مانا جارہا ہے۔مانوندر سنگ کو اپنے والد اور اپنے سیاسی اثر کے ساتھ ریاست میں کانگریس کی حکومت ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ رکن پارلیمنٹ سونارام کا بی جے پی سے ٹکٹ کٹ جانے سے بننے والی صورت حال کا فائدہ ملنے کی امید ہے جبکہ بی جےپی امیدوار کو مودہ لہر اور بی جپی سے ناگو سیٹ پر اتحاد کرنے والے راشٹریہ لوک تانترک پارٹی کے کنوینر ہنومان بینی وال کے ضلع میں ان کے حق میں تشہیر سے فائدہ ملنے کی امید ہے۔باڑمیر میں 21اپریل کو مودی کا بی جےپی امیدوار کی حمایت میں انتخابی جلسہ ہوگا۔
پالی سے قانون کے مرکزی وزیر مملکت اور بی جےپی امیدوار پی پی چودھری کا مقابلہ کانگریس امیدوار سابق رکن پارلیمنٹ بدری رام جاکھڑ سے ہونے کا امکان ہے۔دونوں امیدوار ایک ہی ذات سے تعلق رکھتے ہیں ،اسی وجہ سے جاٹوں کے ووٹوں کی تقسیم ہوگی اور باقی پارٹی اورامیدوار اور مسئلوں کی بنیاد پر ووٹنگ ہونے کا امکان ہے۔بی جےپی مودی کی مقبولیت کے دم پر جیت کےلئے پرامید نظر آرہی ہے وہیں کانگریس ریاست میں کسانوں کے قرض معاف اور بے روزگاری بھتہ وغیرہ وعدوں کےدم پر لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کی امیدلگائے بیٹھی ہے۔
Published: undefined
اودے پور(ریزرو) سیٹ پر بی جےپی امیدوار رکن پارلیمنٹ لال مینا،کانگریس کے سابق رکن رگھوویر مینا،بی ایس پی کے کیشولال مینا،بھارتیہ آدیواسی پارٹی (بی ٹی پی) کے بردھی لال چھنول،مارکسی کمیونسٹ پارٹی (سی پی ایم)کے کیکا مینا سمیت کل نوامیدوار انتخابی میدان میں ہیں۔یہاں بھی مقابلہ بی جےپی اور کانگریس کے درمیان ہی ہے اور چار پارٹیوں امیدواروں کے مینا ہونےسے بھی ووٹوں کی تقسیم ہوگی۔
جالو میں پندرہ امیدوار انتخابی میدان میں ہیں جہاں بی جےپی امیدوار رکن پارلیمنٹ دیو جی ایم پٹیل اور کانگریس کے نئے چہرے رتن دیواسی کے درمیان براہ راست مقابلہ مانا جارہا ہے۔اجمیر میں بی جےپی امیدوار سابق رکن اسمبلی بھاگیرتھ چودھری اور کانگریس امیدوار اور صعنت کار رجو جھنجھن والا کے درمیان براہ راست مقابلہ ہونے کے آثار ہیں۔اجمیر میں بی ایس پی کے درگالال ریگر سمیت کل سات امیدوار انتخابی میدان میں ہیں۔اسی طرح چتوڑ گڑھ میں بی جےپی کے رکن پارلیمنٹ چندر پرکاش جوشی کا براہ راست مقابلہ کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ گوپال سنگھ ایڈوا سے مانا جارہا ہے۔بی ایس پی امیدوار جگدیش چندر شرما،سی پی آئی کی رادھا بھنڈاری اور بی ٹی پی کے پرکاش چندر مینا سمیت کل دس امیدوار انتخابی میدان میں ہیں۔
راج سمند سے بی جےپی امیدوار اور سابق رکن اسمبلی دیا کماری کا مقابلہ کانگریس امیدوار دیوکی نندن سے ہے۔دونوں ہی نئے چہرے ہیں لیکن پارٹی اور مودی کے نام کا ذکر زیادہ ہے،اس لئے یہاں بی جےپی اور کانگریس میں مقابلہ ہے۔ان کے علاوہ بی ایس پی امیدوار چینارام سمیت کل دس امیدوار ہیں۔بھیلواڑا سے دو بار رکن پارلیمنٹ رہے بی جےپی کے سبھاش بہڑیا کا مقابل کانگریس کے نئے چہرے رام لال شرما سے ہونے کی امید ہے۔بھیلواڑا میں کانگریس کے سینئر لیڈر اور اسمبلی اسپیکر سی پی جوشی کا سیاسی اثر ہے لیکن اس بار کانگریس نے نئے چہرے کو انتخابی میدان میں اتارا ہے جس سے بھیلواڑا میں سیاسی دبدبا قائم کرنا ان کےلئے سخت چیلنج بن گیا ہے۔بھیلواڑا میں بی ایس پی کے شیولال گرجر سمیت کل چار امیدوار انتخابی میدان میں ہیں۔
کوٹہ پارلیمانی حلقے میں بھی 15امیدوار الیکشن میں کھڑے ہیں لیکن سب جگہ کی طرح یہاں بھی اہم مقابلہ بی جےپی اور کانگریس میں ہی ہے۔بی جےپی کے رکن پارلیمنٹ اوم بڑلا کا براہ راست مقابلہ کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ رام نارائن مینا سے ہونے کا امکان ہے۔بی ایس پی کے ہریش کمار بھی انتخابی میدان میں ہیں۔ٹونک-سوائی مادھوپور میں بھی امیدوار سابق مرکزی وزیر نمونارائن مینا کا مقابلہ بی جےپی کے رکن پارلیمنٹ سکھویر سنگھ جونپریا سے ہونا ہے۔ٹونک سے کل آٹھ امیدوار انتخابات میں اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔
ان 13سیٹوں میں بانس واڑا (ریزرو)سیٹ پر سہ طرفہ مقابلہ ہونے کا امکان ہے ۔گزشتہ اسمبلی انتخابات میں پہلی بار اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو سیٹ جیتنے والی بی ٹی پی کی وجہ سے اس بار بانس واڑا پارلیمانی حلقے میں سہ طرفہ مقابلہ ہونے کی صورت حال بنتی نظر آرہی ہے۔بی ٹی پی نے یہاں کانتی لال روت کو انتخابی میدان میں اتارا ہے جہاں کانگریس کے تین بار کے رکن پارلیمنٹ رہے تاراچند بھگورا اور بی جےپی امیدوار سابق راجیہ سبھا رکن کن کمل کٹارا کے ساتھ سہ طرفہ مقالبہ ہونے کی صورت حال نظر آرہی ہے۔بانس واڑا میں کل پانچ امیدوار انتخابی میدان میں ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز