بھوپال: مدھیہ پردیش کی بھوپال پارلیمانی سیٹ ہائی پروفائل امیدواروں کی بدولت خواہ ملک بھر میں بحث کا سبب بن گئی ہو، لیکن اس پوری بحث کے درمیان بھوپال کے مقامی مسائل منظر عام سے غائب ہو گئے ہیں۔
Published: undefined
بھوپال پارلیمانی حلقہ سے کانگریس کی جانب سے سابق وزیر اعلی دگ وجے سنگھ کو اپنا امیدوار بنانے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی نے انہیں چیلنج کرنے کے لئے مالیگاؤں دھماکے معاملہ میں دہشت گردی کی ملزمہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو میدان میں اتارا ہے۔ ان دونوں امیدواروں کے پس منظر کے سلسلے میں بھوپال کا انتخاب مکمل طور ’مذہب‘ کی بنیاد پر ہو گیا ہے۔
Published: undefined
اگرچہ دونوں ہی امیدواروں نے اپنی طرف سے بھوپال کے لئے اپنے اپنے’ وژن دستاویز‘ جاری کیے ہیں، لیکن امیدواروں کی شبیہ کی بدولت انتہائی پرسکون تاثیر بھوپال ان دنوں نئی نئی سیاسی تصاویر کا گواہ بن رہا ہے۔ کانگریس امیدوار دگوجے سنگھ نے بی جے پی کے اس گڑھ سے امیدوار بنائے جانے کے بعد اس پارلیمانی حلقہ کی ترقی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنا ’وژن دستاویز‘ جاری کیا، لیکن کچھ ہی دیر بعد پرگیہ ٹھاکر کی جانب سے اس انتخاب کو’ دھرم یدھ‘ بتائے جانے جیسے بیانات کے بعد انتخابات کی تصویر بدل سی گئی۔ پرگیہ ٹھاکر کو شہید ہیمنت کرکرے اور بابری انہدام پر دیئے اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے الیکشن کمیشن کی سختی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ کمیشن نے ان پر 72 گھنٹے کی انتخابی تشہیر پر پابندی لگا دی، لیکن اس مدت میں بھی پرگیہ ٹھاکر کے مندر درشن اور ’مون ورت ‘جیسے منظر انتخابات کے ایجنڈے کو واضح کرتے دکھائی دیئے۔
Published: undefined
بی جے پی کے ہندوتوا کارڈ کے جواب میں کانگریس امیدوار دگوجے سنگھ کی حمایت میں کمپیوٹر بابا سمیت سینکڑوں سادھو سنت اتر آئے ہیں۔ ان سنتوں نے نہ صرف دگوجے سنگھ کی فتح کے لئے شدید گرمی میں ’دھونی رمائی ‘، بلکہ بھگوا لباس پہن کے اسی رنگ میں رنگ کر سڑکوں پر بھی اترے۔ اس دوران دگوجے سنگھ بھی مسلسل سادھو سنتوں کے ساتھ رہتے ہوئے اپنی مبینہ ’ہندوتوا مخالف‘ شبیہ سے باہر نکلنے کی کوشش میں نظر آئے۔
Published: undefined
بی جے پی نے خواہ ہی پرگیہ ٹھاکر کو اپنا امیدوار بنانے کے چند روز قبل ہی پارٹی میں شامل کرایا، لیکن اب پوری پارٹی بھوپال کے قلعہ کو ایک بار پھر فتح کرنے کے لئے پرگیہ ٹھاکر کی حمایت میں اتر آئی ہے۔ دارالحکومت میں پرگیہ ٹھاکر کی حمایت میں پارٹی صدر امت شاہ نے ایک روڈ شو کیا۔ وہیں کانگریس امیدوار دگوجے سنگھ کی حمایت میں اب تک پارٹی کی مرکزی قیادت سے کوئی بڑا لیڈر انتخابی مہم کے لئے نہیں پہنچا۔ وہ خود اپنی انتخابی تشہر میں لگے ہوئے ہیں۔ حالانکہ، وزیر اعلی کمل ناتھ نے ان کی حمایت میں دارالحکومت بھوپال میں ایک ریلی کی ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب حکومت کے وزیر نوجوت سنگھ سدھو نے بھی ان کے حق میں حمایت طلب کی۔
Published: undefined
صوبہ کے دارالحکومت ہونے کے باوجود روزگار کے مواقع کی کمی، صنعتی اداروں کی کمی، بہتر ہوائی کنیکٹوٹی جیسے مسائل طویل عرصہ سے بھوپال لوک سبھا علاقے میں ہیں۔ اس کے علاوہ گیس سانحہ متاثرین کے لئے پینے کے پانی اور طبی سہولیات جیسے مسائل بھی جوں کے توں ہیں۔ بھوپال پارلیمانی سیٹ کی آٹھ اسمبلی سیٹوں میں سے پانچ پر بی جے پی اور تین پر کانگریس کا قبضہ ہے۔ یہاں 12 مئی کو پولنگ ہونی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined