قومی خبریں

لوک سبھا انتخاب 2019: پانچویں مرحلہ میں بھی بی جے پی کے لیے اَپنی سیٹیں بچانا مشکل

عام انتخاب کے 4 مراحل کی ووٹنگ کے ٹرینڈ سے ملے اشاروں کے بعد اب پانچویں مرحلہ کی ووٹنگ بھی بی جے پی کے لیے مشکلوں بھرا نظر آ رہا ہے۔ اس مرحلہ کی بھی زیادہ تر سیٹیں بی جے پی سے چھٹکتی نظر آ رہی ہیں۔

بی جے پی آفس کی فائل تصویر 
بی جے پی آفس کی فائل تصویر  سوشل میڈیا 

وزیر اعظم نریندر مودی سمیت تمام بی جے پی لیڈر یہ بات بار بار یوں ہی نہیں کہہ رہے کہ ’’یہ سوچ کر مطمئن ہونا مناسب نہیں ہے کہ بی جے پی جت رہی ہے‘‘۔ دراصل بی جے پی لیڈروں کو احساس ہو چکا ہے کہ کئی ایسی سیٹیں ہیں جہاں وہ پچھلی بار کامیاب ہوئی تھی اور اس کی وجہ تھی مخالف ووٹوں کا بکھراؤ۔ اس مرتبہ ووٹوں کا یہ بکھراؤ نہیں ہو پا رہا ہے اس لیے یہ سیٹیں چھٹکتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ مثال کے طور پر لداخ لوک سبھا سیٹ کو ہی لے لیجیے۔ یہاں بی جے پی 2014 میں صرف 36 ووٹوں کے فرق سے کامیاب ہوئی تھی۔ گزشتہ بار فتحیاب ہونے والے تھپستان چھیوانگ نے تو اب بی جے پی چھوڑ بھی دیا ہے۔ اس لیے اس سیٹ کو لے کر بی جے پی خود مطمئن نہیں ہو سکتی۔

Published: 03 May 2019, 8:10 PM IST

اتر پردیش میں پانچویں مرحلہ میں بی جے پی کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی فیز میں دو سیٹیں امیٹھی اور رائے بریلی بھی ہیں۔ ان پر بی جے پی گزشتہ مرتبہ مودی لہر میں بھی کامیابی حاصل نہیں کر پائی تھی۔ امیٹھی سے کانگریس صدر راہل گاندھی اور رائے بریلی سے یو پی اے صدر سونیا گاندھی امیدوار ہیں۔ رائے بریلی میں کانگریس نے 63 فیصد سے زیادہ ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی طرح پچھلی بار امیٹھی میں راہل گاندھی نے 46 فیصد سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کر فتحیاب ہوئے تھے۔ ان دونوں سیٹوں پر اس بار ایس پی، بی ایس پی اور آر ایل ڈی نے اپنا امیدوار نہیں اتارا ہے۔ اس لیے یہاں تو بی جے پی کی دال گلنے والی نہیں ہے۔

Published: 03 May 2019, 8:10 PM IST

ویسے جس طرح امیٹھی و رائے بریلی میں دیگر پارٹیوں نے امیدوار نہیں دیے ہیں، اسی طرح کانگریس نے بھی اجیت سنگھ کے خلاف مظفر نگر، جینت چودھری کے خلاف باغپت، اکشے یادو کے خلاف فیروز آباد، ملائم سنگھ یادو کے خلاف مین پوری، ڈمپل یادو کے خلاف قنوج اور اکھلیش یادو کے خلاف اعظم گڑھ میں امیدوار نہیں دیے ہیں۔ یہ اشارہ ہے کہ انتخاب کے بعد کانگریس اور ایس پی-بی ایس پی-آر ایل ڈی اتحاد کی سیاست کیا کروٹ لینے جا رہی ہے۔

Published: 03 May 2019, 8:10 PM IST

پانچویں مرحلہ میں کئی سیٹیں ایسی بھی ہیں جن پر گزشتہ مرتبہ بی جے پی سیکولر پارٹیوں کے درمیان ووٹوں کے بکھراؤ کی وجہ سے کم ووٹ حاصل کرنے کے باوجود کامیاب ہو گئی تھی۔ اس بار ایس پی-بی ایس پی-آر ایل ڈی اتحاد کے سبب وہ پریشان ہے۔ مثال کے طور پر دھورہرا سیٹ پر بی جے پی کو 34 فیصد سے بھی کم ووٹ ملے تھے، پھر بھی وہ کامیاب ہو گئی تھی۔ گزشتہ انتخاب میں ایس پی-بی ایس پی کے ووٹوں کو جوڑ دیں تو یہ 44 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

Published: 03 May 2019, 8:10 PM IST

اسی طرح سیتا پور میں بھی بی جے پی کو 40 فیصد ووٹ ملے تھے جب کہ ایس پی-بی ایس پی کا مشترکہ ووٹ فیصد 50 سے بھی زیادہ رہا تھا۔ موہن لال گنج میں بھی بی جے پی کو 41 فیصد سے کم ووٹ ملے تھے۔ یہاں ایس پی-بی ایس پی کو ملے ووٹوں کو جوڑ دیں تو یہ 50 فیصد بیٹھتا ہے۔ باندا میں بھی بی جے پی محض 40 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہو گئی تھی، جب کہ ایس پی-بی ایس پی کا مشترکہ ووٹ فیصد پچھلی بار 48 فیصد سے بھی زیادہ تھا۔

Published: 03 May 2019, 8:10 PM IST

ویسے بی جے پی نے اس اتحاد کے خوف سے یہاں کے موجودہ رکن پارلیمنٹ بھیروں مشرا کا ٹکٹ کاٹ کر اس بار آر کے سنگھ پٹیل کو امیدوار بنایا ہے۔ فتح پور میں بی جے پی نے 2014 میں سادھوی نرنجن جیوتی کو اپنا امیدوار بنایا تھا۔ انھیں 45 فیصد ووٹ ملے تھے۔ پچھلی بار ملے ایس پی-بی ایس پی کے ووٹوں کو جوڑ دیں تو یہ بی جے پی کے برابر ہی ہوتا ہے۔ نرنجن جیوتی آر ایس ایس کے بنیادی ایجنڈے- ہندوتوادی راشٹروادی کی پرچم بردار ہیں۔

Published: 03 May 2019, 8:10 PM IST

بی جے پی نے کوشامبی سیٹ پر پچھلی بار 37 فیصد سے بھی کم ووٹ ملے تھے۔ یہاں ایس پی-بی ایس پی کے ووٹوں کو جوڑ دیں تو یہ تقریباً 54 فیصد ہوتا ہے۔ گویا کہ بی جے پی کو کامیابی ملنے کی وجہ سیکولر پارٹیوں کے درمیان ووٹوں کی تقسیم تھی۔ بارہ بنکی اور فیض آباد میں بھی ایسا ہی تھا۔ بہرائچ میں بی جے پی نے 2014 میں ساوتری بائی پھولے کو امیدوار بنایا تھا۔ اس بار وہ کانگریس سے یہاں امیدوار ہیں۔

Published: 03 May 2019, 8:10 PM IST

گزشتہ انتخاب میں قیصر گنج سے بی جے پی کے برج بھوشن سنگھ 40 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے تھے۔ ان کی شبیہ زور آور لیڈر والی ہے۔ لیکن اسی سیٹ پر ایس پی-بی ایس پی کے ووٹوں کو جوڑ دیں تو یہ تقریباً 48 فیصد بنتا ہے۔ پچھلی بار گونڈا سیٹ پر ایس پی-بی ایس پی کا مشترکہ ووٹ فیصد 35 سے زیادہ تھا۔ یہاں بی جے پی اتحاد سے ووٹوں کا فرق صرف 6 فیصد کا ہے۔ اگر بی جے پی کا تھوڑا بھی ووٹ کم ہوا تو اس بار اس کے لیے مشکل ہو جائے گی۔

Published: 03 May 2019, 8:10 PM IST

ویسے بھی لوک سبھا انتخاب کے پچھلے چار مراحل میں اتر پردیش میں ایس پی-بی ایس پی-آر ایل ڈی اتحاد بی جے پی پر بھاری پڑا تھا اس لیے آئندہ مراحل میں بھی وہ بی جے پی کو پریشان کیے رہے گا۔

Published: 03 May 2019, 8:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 03 May 2019, 8:10 PM IST