لوک سبھا اسپیکر نے کیرالہ سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ کے سدھاکرن کو ایک سوال پوچھنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا جس میں ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی اور مذہبی لباس پہننے والے طلباء کی طرف سے درپیش چیلنج پر قومی سلامتی کونسل کی تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
Published: undefined
کانگریس کے کیرالہ کے ریاستی صدر اور ایم پی کے سدھاکرن نے پوچھا تھا کہ قومی سلامتی کونسل کے ذریعہ ملک کے اتحاد اور ہم آہنگی پر فرقہ واریت کے قلیل، درمیانی اور طویل مدتی چیلنجوں اور فرقہ واریت کے اثرات کے جائزہ پر حکومت کا کیا موقف ہے۔ سدھاکرن نے یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا قومی سلامتی کونسل فرقہ وارانہ اور مذہبی پولرائزیشن سے سماج کے ایک طبقے کو الگ تھلگ کرنے کا جائزہ لیا ہے۔ سدھاکرن نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں لوک سبھا اسپیکر کو ایک درخواست دے کر اس مسئلہ پر بحث کرانے کا مطالبہ کریں گے۔
Published: undefined
یہ دوسری بار ہے جب ارکان پارلیمنٹ کو سوال پوچھنے سے روکا گیا ہے۔ فروری کے شروع میں سدھاکرن نے اقلیتی امور کے وزیر سے ملک میں مذہبی اور ذات پات کی بنیاد پر ہونے والے ظلم و ستم کے بارے میں پوچھا تھا۔ لیکن پھر بھی انہیں روک دیا گیا تھا۔
Published: undefined
سدھاکرن وزارت سے مذہبی اور ذات پات کی بنیاد پر ہونے والی اموات اور ملک بھر میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم سے متعلق ڈیٹا چاہتے تھے۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ کیا حکومت اس بات سے واقف ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی تعداد میں 96 فیصد اضافہ ہوا ہے اور صرف 2020 میں نسلی تسدد کے واقعات میں 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کیا حکومت کو معلوم ہے کہ درج فہرست ذاتوں کے خلاف جرائم میں 9.4 فیصد اور درج فہرست قبائل کے خلاف جرائم میں 9.3 فیصد اضافہ ہوا ہے؟
Published: undefined
سدھاکرن نے اپنے سوال میں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کو شامل کیا تھا جس سے پتہ چلتا ہے کہ 2020 میں فرقہ وارانہ فسادات میں 96 فیصد اور نسلی تشدد میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ فروری ماہ میں سوال مسترد ہونے کے بعد، سدھاکرن نے لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کو خط لکھ کر سوالات کے مسترد ہونے کی وجہ جاننے کی کوشش کی تھی۔ لیکن انہیں ابھی تک اس کا جواب نہیں ملا۔
Published: undefined
پارلیمنٹ کے گزشتہ چند اجلاسوں میں کئی ارکان پارلیمنٹ اور خاص طور پر اپوزیشن ارکان کو سوالات پوچھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ فروری میں، حکومت نے راجیہ سبھا سکریٹریٹ کو لکھا کہ ترنمول ایم پی شانتا چھتری کے ڈیموکریسی انڈیکس میں ہندوستان کی پوزیشن پر سوال اٹھانے کی اجازت نہ دی جائے۔ شانتا چھتری نے یہ جاننا چاہا کہ اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے ڈیموکریسی انڈیکس میں ہندوستان کیوں 53 ویں نمبر پر ہے اور اگر حکومت کو معلوم ہے کہ اس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے تو حکومت نے اسے بہتر کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined