کلکتہ ہائی کورٹ نے رام نومی کے موقع پر مغربی بنگال کے مختلف مقامات پر ہونے والے تشدد پر آج سخت تبصرہ کیا۔ عدالت نے کہا کہ وہ ان حلقوں میں لوک سبھا انتخابات کی اجازت نہیں دے گی جہاں رام نومی کے دوران فرقہ وارانہ تشدد پیش آیا تھا۔
Published: undefined
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ٹی ایس سیوگنم کی صدارت والی بنچ نے یہ سخت تبصرہ مرشد آباد میں 17 اپریل کو رام نومی جلوس کے دوران ہوئے تشدد کے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر لوگ امن اور ہم آہنگی سے نہیں رہ سکتے تو ہم کہیں گے کہ الیکشن کمیشن ان اضلاع میں پارلیمانی انتخابات نہ کرائے۔ یہی واحد طریقہ ہے۔ ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کے باوجود اگر لوگوں کے دو گروہ اس طرح لڑ رہے ہیں تو وہ کسی منتخب نمائندے کے مستحق نہیں۔
Published: undefined
ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ تشدد والے علاقوں میں انتخابات 7 مئی اور 13 مئی کو ہیں۔ ہم کہیں گے کہ تشدد والے علاقوں میں الیکشن نہیں ہونے چاہئیں۔ الیکشن کا کیا فائدہ؟ کولکاتا میں بھی 23 مقامات ایسے ہیں جہاں پر رام نومی کا جشن منایا گیا لیکن کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ اگر یہ اس وقت ہو رہا ہے جب مثالی ضابطہ اخلاق نافذ ہے تو ریاستی پولیس کیا کر تی ہے؟ مرکزی افواج کیا کر رہی ہیں؟ یہ دونوں تصادم کو نہیں روک سکے؟ اب تک کتنے لوگ گرفتار ہوئے؟ اس پر ریاست کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے کہا کہ اب ان واقعات کی تفتیش سی آئی ڈی نے سنبھال لی ہے۔
Published: undefined
ہائی کورٹ نے کہا کہ ہماری تجویز یہ ہے کہ ہم الیکشن کمیشن آف انڈیا سے سفارش کریں کہ جو لوگ پرامن طریقے سے جشن نہیں منا سکتے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی جائے۔ ہم الیکشن کمیشن کو مشورہ دیں گے کہ برہام پور (مرشد آباد علاقہ) میں ہونے والے انتخابات کو ملتوی کیا جائے۔ دونوں طرف سے یہ عدم برداشت ناقابل قبول ہے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ رام نومی کے موقع پر پیش آنے والے پرتشدد واقعات کی ہائی کورٹ نے رپورٹ طلب کر لی ہے، مگر انتخابات روکنے کے حوالے سے تاحال کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا ہے۔ اب کیس کی مزید سماعت جمعہ کو ہوگی۔ مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع میں 17 اپریل کو رام نومی کے جلوس کے دوران پرتشدد جھڑپ ہوئی تھی۔ یہ واقعہ شام کے وقت شکتی پور علاقے میں پیش آیا تھا۔ پولیس نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے گولے داغے تھے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined