کانگریس نے دہلی کی 7 سیٹوں میں سے چھ سیٹوں پر امیدواروں کے ناموں کا اعلان کر کے واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ عام آدمی پارٹی کا دباؤ ہر گز نہیں مانے گی۔ دہلی پردیش کانگریس کی سربراہ اور دہلی کی سابق وزیر اعلی نے ان انتخابات میں خود میدان میں اتر کر پارٹی کی آگے سے قیادت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کانگریس نے جنوبی دہلی کو چھوڑکر باقی چھ سیٹوں کے لئے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔ شیلا دکشت شمال مشرقی دہلی سے، اجے ماکن نئی دہلی سے، جے پرکاش اگروال چاندنی چوک سے، مہابل مشرا مغربی دہلی سے، اروندر سنگھ لولی مشرقی دہلی اور دہلی پردیش کانگریس کے ورکنگ صدر دہلی کی واحد ریزروڈ سیٹ شمال مغربی پارلیمانی سیٹ سے چناوی میدان میں ہیں۔
گزشتہ دو ماہ سے کانگریس اور عام آدمی پارٹی میں مل کر انتخابات لڑنے کی بات ہو رہی تھی اور یہ بات چیت ہر سطح پر چلی لیکن عام آدمی پاڑٹی کی جانب سے روز نئی نئی شرائط سامنے آتی رہیں جس سے یہ واضح ہو گیا کہ کانگریس اتحاد کرنے کے لئے کسی بھی حد تک چلی بھی جائے لیکن عام آدمی پارٹی کے کنوینر اور دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال یہ اتحاد نہیں کریں گے۔
کانگریس ہریانہ میں چوٹالہ کی جے جے پی (جن نائک جنتا پارٹی) کے ساتھ کسی بھی طرح کے اتحاد کے حق میں نہیں تھی لیکن دہلی کی وجہ سے وہ عآپ کے ساتھ اتحاد کرنے کے لئے تیار تھی لیکن عام آدمی پارٹی کی یہ ضد تھی کہ کانگریس جے جے پی کے ساتھ بھی اتحاد کرے۔ اپنی ریاستی اکائی کے خلاف جاتے ہوئے کانگریس ہریانہ میں تین سیٹیں دینے کے لئے تیار ہوگئی تھی جس میں دو جے جے پی اور ایک عام آدمی پارٹی کے لئے۔ ذرائع کے مطابق اس پر عآپ کے راجیہ سبھا کے تینوں ارکان رضامند بھی ہو گئے لیکن بات چیت کے بعد کیجریوال نے کہا کہ ان کو اور جے جے پی کو چار سیٹیں چاہیے۔ کانگریس نے پہلے ہی زہر کا پیالہ پیتے ہوئے دس میں سے 3 سیٹیں دینے کے لئے رضامندی کا اظہار کر دیا تھا۔
واضح رہے لوک سبھا انتخابات کے بعد ہریانہ میں اسمبلی انتخابات بھی ہونے ہیں چونکہ کانگریس اور جے جے پی دونوں کا ووٹ بینک جاٹ ہے اس لئے کانگریس عام آدمی پارٹی کے ساتھ تو اتحاد کرنا چاہتی تھی لیکن جے جے پی کے ساتھ نہیں۔ بحرحال ہریانہ سے ملنے والی خبریں بہت امید افزا ہیں اور کانگریس وہاں پر دس میں سے سات سیٹ تک جیت سکتی ہے۔ ایک مرتبہ جب بات بنتی نظر آرہی تھی تو عآپ نے اس بات کو روکنے کے لئے نیا مدا ٹھایا اور مطالبہ کیا کہ اس کو چندی گڑھ کی سیٹ اور گووا سے ایک سیٹ پرٹکٹ دیا جائے۔ دونوں ریاستوں کی کانگریس اکائی نے اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیا۔
نئی دہلی پارلیمانی حلقہ سے کانگریس کے امیدوار اور سابق وزیر اجے ماکن نے اپنے سابقہ بیان کو دہراتے ہوئے کہا ’’میں ہمیشہ سے کہتا رہا ہوں کہ عآپ بی جے پی کی بی ٹیم ہے اس لئے کانگریس کسی بھی حد تک چلی جاتی تب بھی عآپ اتحاد نہیں کرتی کیونکہ وہ اپنے ہر قدم سے بی جے پی کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن دہلی اور ہریانہ سے کانگریس کے حق میں وہ نتیجے آئیں گے جو سب کو حیران کر دیں گے‘‘۔
اتحاد کے سب سے زیادہ مخالف رہے دہلی کانگریس کے ورکنگ صدر راجیش للوٹھیا جو شمال مغرب کی پارلیمانی سیٹ سے کانگیرس کے امیدوار ہیں انہوں نے کہا ’’یہ سب کو معلوم ہے کہ رام لیلا میدان میں جو لوگ کانگریس کی منموہن سنگھ حکومت کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے اس کی قیادت سامنے سے انا ہزارے اور اروند کیجریوال کر رہے تھے لیکن پیچھے سے اس کی ڈور سنگھ کے ہاتھ میں تھی تو ہم ایسے لوگوں کا کیسے یقین کر سکتے ہیں‘‘۔
Published: undefined
گاندھی نگر کے سابق رکن اسمبلی اور مشرقی دہلی کے امیدوار اروندر سنگھ لولی کا کہنا ہے’’ہم نے بی جے پی حکومت کو روکنے کے لئے سال 2013 میں کیجریوال حکومت کو حمایت دی تھی لیکن کیجریوال نے لوک پال کے نام پر حکومت سے استعفی دے دیا تھا اور بی جے پی کو دہلی میں مظبوط کرنے کا کام کیا تھا اس لئے ان پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے‘‘۔
یہ انتخابات اب سہ رخی ہوگئے ہیں اور ان انتخابات کے سہ رخی ہونے سے سب سے زیادہ نقصان عآپ کو ہو سکتا ہے۔ عام آدمی پارٹی اور کانگریس کا ایک ہی ووٹ بینک ہے۔ دونوں پارٹیوں کو دلت، پچھڑے، مسلمان اور مڈل کلاس کی حمایت حاصل ہے اور ان ووٹوں کے تقسیم ہونے سے سب سے زیادہ عآپ کو نقصان ہوگا۔ دہلی کی 4 سالہ حکومت کے دوران عآپ کا گراف زبردست نیچے آیا ہے اور کئی قدآور رہنما جن میں پرشانت بھوشن، یوگیندر یادو، آشوتوش، کمار وشواس، آشیش کھیتان جیسے رہنما پارٹی چھوڑ کر چل گئے ہیں۔ اس بیچ تین وزیروں کو ہٹایا جا چکا ہے جن میں دو پر بدعنوانی کے الزام تھے اور تیسرے کپل مشرا نے خود وزیر اعلی پر بدعنوانی کا الزام لگایا ہے۔ وزیر اعلی کے پرنسپل سیکریٹری راجندر کمار کے خلاف بھی کیس ہوا تھا۔ ان سب کی وجہ سے عآپ کا مڈل کلاس ووٹر پارٹی سے دور ہوگیا ہے اب صرف غریب مسلمان اور دلتوں کا کچھ حصہ پارٹی کے ساتھ کھڑا نظر آ رہا ہے۔ کانگریس کے لئے سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کا مڈل کلاس ووٹر واپس آ گیا ہے کیونکہ مڈل کلاس ووٹر بی جے پی اور عآپ دونوں سے ناراض ہے اور دہلی میں شیلا دکشت کی شبیہ ایک کام کرنے والی وزیر اعلی کی ہے۔ بی جے پی کو سہ رخی انتخابات ہونے کا فائدہ ہو سکتا ہے لیکن اس کے امیدواروں کی کارکردگی کو لے کر دہلی کے عوام میں ایک بڑی ناراضگی ہے اور سیلنگ اور جی ایس ٹی کی وجہ سے کاروباری طبقہ بہت ناراض ہے جس کی وجہ سے بی جے پی کو سہ رخی چناؤ کا جو فائدہ ہوسکتا تھا وہ نہیں ہوتا نظر آ رہا ہے۔
کانگریس نے ساتویں سیٹ جنوبی دہلی سے اپنے امیدوار کے نام کا اعلان نہیں کیا ہے کیونکہ پارٹی کے اوپر ایک طرف سے دباؤ ہے کہ سجن کمار کے بھائی اور سابق رکن پارلیمنٹ رمیش کمار کو ٹکٹ دیا جائے لیکن دوسری جانب اس پر یہ دباؤ بھی ہے کہ ایسا کرنے سے 84 کے فسادات دوبارہ زندہ ہو سکتے ہیں اور اس کا اثر پنجاب کے انتخابات پر بھی پڑ سکتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined