تیسرے مرحلے کی ووٹنگ میں ایک ہفتہ کا وقت ہی بچا ہے اور سنبھل پارلیمانی سیٹ کو فتح کرنے کے لئے انڈیا اتحاد، بی جے پی اور بی ایس پی نے اپنی پوری طاقت جھونک رکھی ہے۔ بی جے پی اُمیدوار پرمیشور لال سینی کی حمایت میں جہاں صوبے کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے یہاں کے لوگوں سے بڑے بڑے وعدے کئے ہیں تو وہیں سماجواد ی پارٹی کے قومی صدر اور یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کا کہنا ہے کہ اگر مرکزمیں انڈیا اتحاد کی حکومت بنتی ہے تو وہ اس ضلع کو ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جائیں گے۔
Published: undefined
بی ایس پی اُمید وار ایڈووکیٹ صولت علی چودھری کا کہنا ہے کہ انڈیا اتحاد میں شامل کانگریس و سماجوادی پارٹی دونوں ہی پارٹیوں نے اس ضلع کے لئے کچھ نہیں کیا۔ رہی بات بی جے پی کی تو اُس کی جھولی میں مسلم اکثریتی علاقوں کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ دلتوں اور اقلیتوں کے لئے اگر کوئی کچھ کر سکتا ہے تو وہ بی ایس پی سربراہ مایاوتی ہیں۔
Published: undefined
ان سیاسی لیڈروں کے دعووں اور وعدوں سے پرے سنبھل کے لوگ اپنا الگ ہی موقف رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی پارٹی نے سنبھل کے لیے کچھ نہیں کیا اور یہاں کی عوام اسے ہی ووٹ دے گی جو نئی سوچ رکھتا ہو، جس کے دل میں ملک اور قوم کی ترقی کا جذبہ ہوا اورجو فرقہ پرستی کے سامنے سینہ سپر رہے۔ چونکہ سنبھل کے لوگوں کو یہ تمام خصوصیات کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی میں نظر آتی ہیں اس لیے ان کا جھکاؤ انڈیا اتحاد کی جانب ہے۔
Published: undefined
کانگریس لیڈر راہل گاندھی سے متعلق لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ وہ جدید دور کی سوچ رکھنے والے اور دور اندیش لیڈر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں انہیں بھرپور مقبولیت حاصل ہے اور اس مقبولیت کا براہ راست فائدہ انڈیا اتحاد کے امیدوار کو ملتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ یوں بھی عوام میں یہ تاثر نہایت مضبوط ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دینے کی پوزیشن میں جو بھی امیدوار ہوگا، اسے کامیاب کرایا جائے۔ اس سیٹ پر اس پوزیشن میں انڈیا الائنس کا ہی امیدوار ہے، اس لیے یہاں سے اس کا پلڑا بھاری ہی کہا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
گوکہ اس بار یہاں انڈیا الائنس کے حق میں فضا ہموار سی محسوس ہو رہی ہے لیکن 1984کے بعد یہاں سے کانگریس کی سیاسی زمین اس کے ہاتھ سے نکل گئی تھی۔ یہ پہلا موقع ہے جب انڈیا اتحاد کے سہارے کانگریس کی واپسی کے آثار نظر آرہے ہیں۔ اس وقت سنبھل میں بھلے ہی سماجوادی پارٹی کا اُمید وار ہے مگر رائے دہندگان میں انڈیا اتحاد اور راہل گاندھی کا ہی ذکر ہے۔ عبدالرحمن ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ یہاں سے انڈیا اتحاد ہی کامیاب ہوگا، اُس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ 10سال کے جھوٹ سے اب تنگ آچکے ہیں۔ عوام کو جملہ والی حکومت نہیں چاہئے بلکہ عوام اب ایسے لیڈر کی طرف دیکھ رہی ہے جس کی سوچ بڑی اور اِرادے مضبوط ہوں اور راہل گاندھی کی شخصیت اس معیار پر پوری اترتی ہے۔
Published: undefined
محمد اکبر علی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ یقیناً سنبھل کو جو حاصل ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ملا، یہ تاریخی شہر اپنی حالت پر ہمیشہ سے افسردہ ہے مگر اس وقت ملک کی سیاست نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ یہاں ضیاء الرحمن برق ہیں اور وہاں راہل گاندھی اور اکھلیش یادو ہیں۔ اس لئے سنبھل کی عوام نئی اُمید کے ساتھ اتحاد کے اُمیدوار کو ہی ووٹ دے گی۔ جبکہ ایڈووکیٹ منوج سینی کا کہنا ہے کہ اس سیٹ سے ملائم سنگھ یادو، رام گوپال یادو بزرگ لیڈر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن برق رکن پارلیمنٹ رہ چکے ہیں، مگر سنبھل کی تاریکی ختم نہیں ہوئی۔ اب یہاں کی عوام بی جے پی کو چاہتی ہے تاکہ یہاں ترقیاتی کام ہو سکے۔
Published: undefined
سرفراز ایڈووکیٹ نے بھی انڈیا اتحاد کے اُمید وار پر ہی بھروسہ جتایا اور کہا کہ یہ مسلم اکثریتی حلقہ ہے، بی جے پی کبھی یہاں کچھ نہیں کریگی۔ ہمیں انڈیا اتحاد پر بھروسہ ہے۔ اس صورت حال سے یہ بات بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ یہاں مقابلہ بی جے پی اور انڈیا اتحاد کے درمیان ہے کیونکہ بی ایس پی کا کوئی ذکر تک نہیں کرتا ہے۔ جبکہ بی ایس پی اُمید وار صولت علی چودھری ایڈووکیٹ سابق ایم ایل اے رہ چکے ہیں اور ان کا تعلق ایک بڑے سیاسی گھرانے سے بھی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined