لوک سبھا انتخابات 2024 کے پہلے مرحلہ کی مہم جوئی کا شور شام 5 بجے ختم ہو گیا، اس مرحلہ کے تحت ووٹر 19 اپریل کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ پہلے مرحلہ میں اتر پردیش کی 8 لوک سیٹوں پر ووٹنگ ہوگی، جن میں مغربی یو پی کی بجنور سیٹ بھی شامل ہے۔ آر ایل ڈی نے یہاں سے ایک گوجر امیدوار کو میدان میں اتارا ہے، جبکہ بی ایس پی نے جاٹ امیدوار کو اتار کر مقابلہ کو دلچسپ بنا دیا ہے۔ جاٹ ووٹر این ڈی اے اور بی ایس پی میں تقسیم ہوں گے، جس کا براہ راست فائدہ انڈیا اتحاد کو ہوگا۔ سماجوادی پارٹی کے نوجوان لیڈر دیپک سینی یہاں سے انڈیا اتحاد کے امیدوار ہیں، جن کا تعلق پسماندہ طبقہ سے ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ جاٹوں کی تقسیم اور مسلم اور پسماندہ طبقہ کا اتحاد انڈیا بلاک کے لیے خوش آئند ثابت ہوگا۔
Published: undefined
اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو بجنور میں (2011 کی مرشم شماری کے مطابق) مسلمانوں کی تعداد 44.04 فیصد ہے۔ 55 فیصد ہندو ہیں، جس میں 22 فیصد دلت بھی شامل ہیں۔ دلتوں کے علاوہ یہاں جاٹ بھی کافی تعداد میں ہیں، جبکہ تیاگی اور گوجر بھی نمایاں تعداد میں ہیں۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے امیدوار ملوک ناگر نے جیت درج کی تھی، تاہم اس وقت بی ایس پی کا سماجوادی پارٹی کے ساتھ اتحاد تھا۔
Published: undefined
2019 میں بی ایس پی امید وار ملوک ناگر کو 561045 ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ وہیں، بی جے پی کے بھارتندو سنگھ کو 491104 ووٹ ہی مل سکے تھے۔ ملوک ناگر نے بی جے پی کو 69941 ووٹوں سے شکست دی تھی۔ بجنور سیٹ پر کل 1619514 ووٹر ہیں، جن میں سے 874122 مرد اور 745308 خواتین ہیں۔ 2019 میں ان میں سے کل 1100763 (68.2 فیصد) ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا، جس میں سے 1096359 ووٹ درست تھے۔ 4404 ووٹ نوٹا (مندرجہ بالا میں سے کوئی نہیں) کو حاصل ہوئے تھے۔
Published: undefined
اس مرتبہ سماجوادی پارٹی انڈیا اتحاد کا حصہ ہے اور اس نے دیپک سینی کو امیدوار بنایا ہے۔ بی ایس پی نے اس مرتبہ چودھری وجندر سنگھ کو امیدواور بنایا ہے جن کا تعلق جاٹ طبقہ سے ہے۔ آر ایل ڈی نے اس سیٹ سے چندن چوہان کو امیدوار بنایا ہے، جو بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں ہے۔ چندن چوہان بجنور لوک سبھا سیٹ میں شامل میرانپور اسمبلی سیٹ سے موجودہ رکن اسمبلی بھی ہیں اور ان کا تعلق گوجر طبقہ سے ہے۔ بی جے پی ’400 پار‘ نعرہ کے ساتھ خود اعتمادی سے لبریز دکھائی دے رہی ہے، ایسی صورت میں چندن چوہان بھی ایک مضبوط امیدوار ہیں۔ تاہم، سماجوادی پارٹی کے امیدوار دیپک سینی سب سے زیادہ مضبوط نظر آ رہے ہیں۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہاں مسلم ووٹر کافی تعداد میں ہیں اور کوئی مسلم امیدوار میدان میں نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے تقسیم ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ یوں بھی مسلمان ووٹر مسلم امیدواروں کے ہونے سے تقسیم تو ضرور ہوتے ہیں لیکن ان کی اکثریت بلاتفریق مذہب ووٹ دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ریاست میں مسلم ووٹروں کا رجحان سماجوادی پارٹی کی جانب ہے جبکہ دہلی کی سیاست میں راہل گاندھی ان کی پہلی پسند ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سیٹ پر ایک لاکھ کے قریب سینی ووٹر ہیں، جن کا جھکاؤ دیپک سینی کی طرف ہوگا۔ دوسری پسماندہ برادریوں کے بھی کچھ ووٹر ان کے حق میں ووٹ کریں گے۔
Published: undefined
عوامی مسائل کی بات کریں تو یہاں پر تعلیم، سڑک، ٹریفک، کھیتی باڑی اور پسماندگی اہم ہیں، اور بات کرنے پر ووٹروں کا کہنا ہے کہ اسی امیدوار کو منتخب کریں گے جو ان کے مسائل پر خصوصی توجہ دے گا۔ یہاں بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ شاید ہی کوئی گھر ہوگا جس کا نوجوان روزگار کے سلسلے میں کسی بڑے شہر میں نہ رہ رہا ہو۔ اس کے علاوہ کسانوں کی حالت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ کھیتی میں لاگت بڑھنے اور آمدنی کم ہونے کی شکایت یہاں کے کسان بھی کرتے ہیں اور موجودہ نظام میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ ایک حد تک تاجر طبقہ بھی پریشانی سے دو چار ہے۔ چھوٹے تاجروں کا کہنا ہے کہ جی ایس ٹی کی وجہ سے ان کا کاروبار متاثر ہو رہا ہے اور ان کی آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے۔ چونکہ ریاست اور مرکز دونوں میں بی جے پی کی حکومت ہے، لہٰذا عوامی غصہ بھی اسی کے خلاف ہے اور امکان ہے کہ مسائل سے دو چار لوگ اس کے خلاف ووٹ دیں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined