لوک سبھا انتخاب کی سرگرمیوں کے درمیان بی جے پی کے لیے گجرات سے بری خبر سامنے آ رہی ہے۔ وڈودرا اور سابرکانٹھا لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی نے جن امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے، انھوں نے الیکشن لڑنے سے منع کر دیا ہے۔ وڈودرا سے بی جے پی رکن پارلیمنٹ رنجن بین دھننجے اور سابرکانٹھا سے بی جے پی امیدوار بھیکاجی راٹھور نے ذاتی اسباب کو بنیاد بنا کر انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
Published: undefined
گجرات میں وڈودرا لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی کی موجودہ رکن پارلیمنٹ رنجن بھٹ کو پارٹی نے تیسری بار انتخابی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ ہفتہ کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر انھوں نے اپنی امیدواری واپس لینے کا اعلان کر دیا۔ رنجن بین دھننجے بھٹ نے ’ایکس‘ پر لکھا ہے کہ ’’میں اپنے ذاتی اسباب کی وجہ سے لوک سبھا انتخاب 2024 نہیں لڑنا چاہتی ہوں۔‘‘ بی جے پی کے ایک لیڈر نے ان کے ذریعہ امیدواری واپس لینے کے فیصلہ کی تصدیق بھی کر دی ہے۔
Published: undefined
دوسری طرف بھیکاجی ٹھاکور نے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ ڈال کر انتخاب نہ لڑنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انھوں نے اپنے پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’’میں بھیکاجی ٹھاکور اپنے ذاتی اسباب کی وجہ سے لوک سبھا انتخاب 2024 نہیں لڑنا چاہتا ہوں۔‘‘ بھیکاجی ٹھاکور کی جگہ اب پارٹی کس امیدوار کو ٹکٹ دے گی، اس سلسلہ میں کچھ بھی سامنے نہیں آیا ہے۔ دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ رنجن بھٹ اور بھیکاجی ٹھاکور اپنے فیصلے پر قائم رہیں گے یا پھر پون سنگھ کی طرح اپنا فیصلہ بدلیں گے۔
Published: undefined
قابل ذکر بات یہ ہے کہ رنجن بھٹ کو وڈودرا لوک سبھا سیٹ سے ایک بار پھر امیدوار بنائے جانے سے عوام میں ناراضگی دیکھنے کو مل رہی تھی۔ کچھ بینرس اور پوسٹرس ان کے خلاف سامنے آئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ رنجن بھٹ کے ذریعہ اپنا قدم کھینچنے جانے کو اس سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ ایک پوسٹر میں تو یہاں تک لکھا تھا کہ ’مودی تیرے سے بیر نہیں، رنجن تیری خیر نہیں۔ بی جے پی کیا کسی کو بھی امیدوار بنائے گی؟‘ توجہ طلب بات یہ ہے کہ 2014 میں جب نریندر مودی کو وڈودرا اور وارانسی دونوں جگہ جیت ملی تھی تو انھوں نے وڈودرا سیٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس کے بعد 2014 میں ہوئے ضمنی انتخاب میں رنجن بھٹ کو جیت ملی تھی۔ 2019 میں بھی انھوں نے اسی سیٹ پر کامیابی حاصل کی، لیکن ان کی کارکردگی سے اب لوگ ناراض نظر آ رہے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز