اس لوک سبھا انتخاب میں اتر پردیش میں ایس پی-بی ایس پی-آر ایل ڈی اتحاد کو جس ذات پات کے فارمولے سے فتح کی امید تھی، ویسا نہیں ہو پایا اور ان پارٹیوں کےسبھی فارمولے اوندھے منھ گر گئے۔ یہاں مہاگٹھ بندھن جنوری سے وجود میں آیا اور کہا گیا کہ یہ اتر پردیش میں بی جے پی کو شکست دے کر اقتدار میں اس کی واپسی کی راہ روکے گا۔ نتائج اور اب تک کے رجحان نے اتحاد کو بغیر طاقت کا بنا دیا ہے۔ برانڈ مودی اور بی جے پی کے ہندوتوا اور راشٹرواد نے ان کے ذات پات والے فارمولے کو منہدم کر دیا۔
Published: undefined
اپنے خاندانی جھگڑوں سے پریشان سماجوادی پارٹی قیادت نے سالوں پرانی عداوت کو درکنار کرتے ہوئے بی ایس پی سے اتحاد کیا۔ اس کا فارمولہ صاف تھا۔ 40 فیصد پسماندہ (او بی سی) اور 21 فیصد دلت ایک ساتھ آ کر ریاست میں نئی تاریخ لکھیں گے۔
Published: undefined
2014 کے لوک سبھا انتخاب میں ایک بھی سیٹ نہیں جیتنے والی اور 2017 کے اسمبلی انتخاب میں محض 19 سیٹ جیتنے والی بی ایس پی کو بھی یہ فارمولہ جادوئی نظر آیا اور اس نے اتحاد پر اتفاق ظاہر کیا۔ لیکن اس کے برعکس بی جے پی نے غیر یادو او بی سی اور غیر جاٹو دلت پر اپنی توجہ مرکوز کی اور ان کے سبھی جوڑ توڑ کو بگاڑ دیا۔ پارٹی نے ان ذاتوں کو اپنی طرف کھینچ کر فارمولے کو ہی بدل دیا۔ رہی سہی کسر وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ کہہ کر ذت پات کے جنگ کو طبقاتی جنگ میں بدل دیا کہ ’’میری ذات غریب کی ذات ہے۔‘‘ اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے جارحانہ ہندوتوا مہم کے ذریعہ بھی ذات پات کی گول بندی کو مزید کمزور بنایا۔
Published: undefined
انتخابی نتائج نے نہ صرف ذات کی سیاست کی طاقت کو منہدم کیا ہے بلکہ اتحاد کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ نتائج سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ ایس پی اور بی ایس پی ایک دوسرے کو اپنے ووٹ ٹرانسفر کرنے میں ناکام رہیں اور دلتوں کے ساتھ ساتھ او بی سی کے درمیان کا کشیدہ سماجی فارمولہ سیاست پر بھاری پڑ گیا۔
Published: undefined
بی ایس پی کو تو پھر بھی اتحاد سے فائدہ ہوا کیونکہ اس نے رکن پارلیمنٹ میں اپنی موجودگی طے کر لی ہے، گھاٹا سماجوادی پارٹی کو ہوا ہے۔ یادو فیملی کے دو رکن بدایوں سے دھرمیندر یادو اور فیروز آباد سے اکشے یادو انتخاب ہار گئے ہیں۔
Published: undefined
بی ایس پی اور راشٹریہ لوک دل کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ بطور پارٹی صدر اکھلیش یادو کا تھا۔ ملائم سنگھ یادو نے اس پر اعتراض بھی ظاہر کیا تھا۔ یہ پہلا انتخاب ہے جب اکھلیش نے کوئی انتخاب اپنے والد ملائم سنگھ یادو کی رہنمائی کے بغیر لڑا۔ ملائم اپنے انتخابی حلقہ مین پوری تک ہی سمٹے رہے۔
Published: undefined
اب اس فیصلہ پر سوال اٹھ سکتے ہیں اور آنے والے دنوں میں ہو سکتا ہے کہ اکھلیش کو اپنی پارٹی میں اسے لے کر دقت کا سامنا کرنا پڑے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز