لکھنؤ کے امین آباد کی رہائشی رقیہ بانو نے تین سال قبل یشوردھن شریواستو سے تبدیلی مذہب کے بعد شادی رچائی مگر اب یشوردھن شریواستو نے مسکان بن چکی اس خاتون کو در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ رقیہ کی حالت اب نہ گھر کی رہی اور نہ گھاٹ کی، اس پر المیہ یہ کہ اب دونوں ہی کنبہ اس سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔
Published: 12 Dec 2020, 1:21 PM IST
رقیہ کے مطابق شادی کے دن ہی اس کے رشتہ میں دراڑ پیدا ہونا شروع ہو گئی تھی، بقول اس کے دراڑ کی وجہ سسرال والوں کا رویہ تھا۔ مسکان کے مطابق اس کے سسرال والوں نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا اسے انسانی نہیں کہا جا سکتا۔ رقیہ کی ساس اسے کچن کے برتن اور گھر کا سامان بھی نہیں چھونی دیتی تھیں اور کہتی کہ تم مسلمان ہو اور تمہارے چھونے سے گھر کی چیزیں اشدھ (ناپاک) ہو جائیں گی۔ دراصل مسکان کے ہندو بن جانے پر اس کے سسرال والوں کو یقین نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’یہ مسلمان ہی ہے اور یہ کبھی اپنا مذہب ترک نہیں کر سکی۔ ہم شریواستو ہیں، ہمیں اپنے بیٹے کی شادی اپنے مذہب اور برادری میں ہی کرنی چاہیے تھی۔‘‘
Published: 12 Dec 2020, 1:21 PM IST
مسکان بننے سے قبل رقیہ لکھنؤ کے ہی ایک سول سروسز انسٹی ٹیوٹ میں پی سی ایس جے کی کوچنگ دیتی تھی۔ یشوردھن وہیں کوچنگ سینٹر کے مالک کی معرفت وہاں داخلہ لینے آیا تھا اور یہیں پر دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی۔ شادی کرنے کی بات چلی تو شرط تبدیلی مذہب تک پہنچ گئی۔ رقیہ نے کہا کہ یشوردھن نے شادی کے لئے اس پر دباؤ بنایا اور ایک دن نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اس نے چاقو سے اپنے ہاتھ کی رگ کاٹ لی اور واٹس ایپ پر میرے پاس تصویر بھیجی۔ رقیہ کے مطابق ’’یشوردھن نے دھمکی دی کہ اگر مجھ سے شادی نہیں کی تو میں خود کشی کر لوں گا۔ اس کے بعد میں نے شادی کر لی اور اپنا مذہب بھی تبدیل کر لیا۔’’
Published: 12 Dec 2020, 1:21 PM IST
کیا مذہب تبدیل کرنے کے لئے کوئی دباؤ بنایا گیا تھا، اس سوال کے جواب میں رقیہ نے کہا ’’میں نے یشوردھن کے کہنے پر ہی مذہب تبدیل کیا تھا، یشوردھن کا کہنا تھا کہ اگر تم مذہب تبدیل کر لیتی ہو تو میرے خاندان کے ساتھ گھلنے ملنے میں آسانی رہے گی۔ میں نے بھی سوچا کہ زندگی تو سسرال والوں کے ساتھ ہی گزارنی ہے۔ میرے خاندان کے لوگ تبدیلی مذہب سے خوش نہیں تھے اور شادی کرنے کے بعد میرے پاپا، بھائی اور بہنوں نے مجھے بات کرنی بند کر دی تھی۔‘‘
Published: 12 Dec 2020, 1:21 PM IST
رقیہ کا کہنا میں کہ میں لگاتار اپنی والدہ سے بات کرنے کی کوشش کرتی رہی، شادی کے چھ مہینے بعد میرے والد کو میرے فیصلہ کو قبول کرنا پڑا اور انہوں نے تقریب کا انعقاد کیا۔ یشوردھن شریواستو کو میرے خاندان نے وہی درجہ دیا جو ایک داماد کو حاصل ہوتا ہے۔
Published: 12 Dec 2020, 1:21 PM IST
شادی کے بعد رقیہ کی زندگی اجیرن بن گئی۔ اس کے بقول ’’ساس کہتی کہ میں کسی ’ایس سی‘ لڑکی کو تو اپنے بیٹے کی بہو بنا سکتی ہوں لیکن تمہیں (مسلمان) نہیں۔ مجھے گھر کا سامان چھونے نہیں دیا جاتا تھا یہاں تک کہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانے پر بھی گالیاں دی جاتی تھیں۔ مجھے صرف اپنے شوہر کے ساتھ سونے کی اجازت تھی، جس پر میں سوچتی تھی کہ کیا میں کوئی استعمال کی چیز ہوں۔ میں مسلمان سے ہندو بن چکی ہوں پھر بھی مجھے گھر میں ہو رہی پوجا میں شامل نہیں ہونے دیا جاتا تھا۔ اگر میں مندر میں بیٹھ جاتی تو میری ساس مجھے وہاں سے یہ کہہ کر اٹھا دیتی کہ یہ ناپاک ہو جائے گا۔
Published: 12 Dec 2020, 1:21 PM IST
مسکان کا کہنا ہے، ‘‘میں پوری طرح برباد ہو چکی ہوں۔ میرے میکے والے مجھے ہندو کہتے ہیں اور لعن تعن کرتے ہیں کیونکہ میں نے ایک ہندو سے شادی کی ہے، کوئی مجھ سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ میں نے کسی طرح اپنی ماں کو راضی کر کے ایک برامدے میں اپنا بستر لگایا ہے اور گھر والوں سے کہا ہے کہ میں آپ پر بوجھ نہیں بنوں گی، مجھے تھوڑا وقت چاہیے، مضبوط ہو جاؤں پھر اپنے لئے انصاف کی لڑائی لڑوں گی۔‘‘
Published: 12 Dec 2020, 1:21 PM IST
مسکان کا کہنا ہے کہ ’’جو میرے ساتھ ہوا وہ قانوناً جرم ہے۔ میرے شوہر نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ میرے والدین کہتے ہیں کہ میں ہندو ہوں اور سسرال والے کہتے ہیں کہ میں مسلمان ہوں۔ میں یہ ثابت کرنے کی بھی لڑائی لڑ رہی ہوں کہ میں کیا ہوں۔ لیکن میرا ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا انصاف کا ترازو کسی کا مذہب دیکھ کر انصاف کرتا ہے۔‘‘ مسکان کا سوال ہے کہ میرے جیسا معاملہ اگر کسی ہندو لڑکی کا ہوتا تو کیا اس وقت بھی یہی ہوتا؟ اس کا کہنا ہے کہ چوںکہ میں مسلمان تھی اور میرا شوہر ہندو اس لئے پولیس نے میری شکایات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
Published: 12 Dec 2020, 1:21 PM IST
ایڈوا نامی تنظیم لکھنؤ کی رقیہ عرف مسکان کی انصاف کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ایڈوا کی مدھو گرگ کہتی ہیں، ’’اگر مذہب میں شادی کرنے والے جوڑوں کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس معاملہ میں بھی وہی دقتیں ہیں۔ ہندو اور مسلم لڑکیاں یکساں طور پر محبت کی شادیاں کرتی ہیں مگر حکومت اس کو ’لو جہاد‘ کا نام دے کر ایک فریق کی ہی بات کرتی ہے، ہمارے پاس دونوں مذہب کی متاثرہ خواتین آتی ہیں۔‘‘
Published: 12 Dec 2020, 1:21 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 12 Dec 2020, 1:21 PM IST
تصویر: پریس ریلیز